تقدیسِ قران کے موثر اقدامات کی ضرورت

سوئیڈن میں عدالت کی اجازت کے بعد انتہاء پسندوں کی جانب سے عید الاضحی کے پہلے روز دارالحکومت اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی سے دنیا بھر کے مسلمان مغموم ہی نہیں گہرے غم و غصہ میں ہیں‘ قرآن پاک کی بے حرمتی سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ہوئی تھی اور پولیس کی جانب سے اجازت یافتہ احتجاج کے دوران ایک شخص نے اسے انجام دیا تھا۔ایک بین الاقوامی اسلامی ادارے کی جانب سے مستقبل میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے اقدامات پر زور دینے کے بعد سویڈش حکومت نے ''اسلام فوبک'' ایکٹ کی مذمت کی۔مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک سمیت متعدد ممالک کے حکام نے بھی اس واقعے پر ردعمل ظاہر کیا اور اسٹاک ہوم سے مذہبی منافرت کے خلاف اقدامات تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی  سوئیڈن میں دائیں بازو کے رہنما راسمس پالوڈان نے دو سے زائد بار قرآن پاک کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی تھی جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی‘ یوں حالیہ واقعہ سویڈن میں یہ کوئی پہلی بارنہیں ہوا۔  ماضی میں اس طرح کا واقعہ ہوچکا ہے‘ لیکن حالیہ واقعہ اس لیے بھی قابل مذمت ہے کہ  ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں سوئیڈش پولیس کی حفاظت میں انتہا پسندوں نے قرآن پاک کا نسخہ شہید کیا ہے اورپولیس نے قرآن کی بے حرمتی پر آواز اٹھانے پر ایک مسلمان نوجوان کو اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ اس واقعہ کے خلاف عالم اسلام میں ردعمل پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عرب، ایران اور روس سمیت متعدد ممالک کی جانب سے بھی اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ رد عمل اس قدر شدید تھا کہ مراکش نے اپنا سفیر واپس بلالیا اور اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور اس ناقابل قبول عمل کو مسترد کردیا۔ عراق میں بھی مظاہرے ہوئے‘ بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا گیا‘ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ ہم متکبر مغربی لوگوں کو سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی مقدس اقدار کی توہین کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا وہ اس لیے فکر مند ہیں کیونکہ سویڈن اشتعال انگیزی کو روکنے میں ناکام ہے۔ توقع ہے کہ سویڈن گزشتہ سال نیٹو میڈرڈ سربراہی اجلاس میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کرے گا، تاکہ فوجی اتحاد میں شامل ہو سکے۔ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے  سویڈن میں مسجد کے باہر قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے معاملے پر ہنگامی اجلاس منعقد کیا‘ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے کہا ہے کہ قران پاک کی بے حرمتی کیخلاف سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے، متعلقہ حکومتیں گھنائونے حملے روکیں، او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق آزادی اظہار کا حق استعمال کیا جائے، اعلامیہ میں مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کے تدارک کیلئے اجتماعی اقدامات اٹھائیں۔ او آئی سی کی جانب اعلامیہ مذید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔  پوری امت مسلمہ ایک روز مشترکہ طور پر عالمی سطح پر یوم تقدیس قرآن مناتی‘ اور اس روز پورے عالم اسلام میں او آئی سی کے رکن ممالک قومی پرچم سرنگوں کرتے‘ بہر حال جو فیصلہ ہوا اس پر بھی اگر عمل درآمد ہوجائے تو بہتر ہے۔  او آئی سی کو اب خود فالو اپ کرنا چاہیے‘ عالمی رد عمل کا ایک بڑا اسکیل دیکھ کرسویڈن کی حکومت نے سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت کی اور سویڈش وزارت خارجہ نے موقف دیا کہ توہین آمیز واقعے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، قرآن پاک یا کسی مقدس کتاب کی توہین اشتعال انگیزی، جارحانہ اور گستاخانہ اقدام ہے، ایسے واقعات حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔ انکی حکومت اسلاموفوبیا کے اقدامات کو سمجھتی ہے جس کا ادراک سویڈن میں مظاہروں کے دوران کچھ افراد نے انفرادی طور پر کیا ہے اور یہ مسلمانوں کی نظر میں اشتعال انگیز ہوسکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایسے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان کا سویڈش حکومت کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 سویڈن کی حکومت کی جانب سے یہ مذمت اس وقت سامنے آئی ہے جب 57 رکنی مسلم ممالک کی آرگنائزیشن اسلامی تعاون تنظیم نے مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کو روکنے کیلئے اجتماعی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ او آئی سی نے اعلامیے میں  اس قسم کے اقدامات کی سنگینی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدام کے پھیلائو اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں۔تنظیم کے ایک غیر معمولی اجلاس میں سویڈن میں عیدالاضحیٰ کے موقع پرقرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعے اور اسکے مضمرات پرتبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھنائونے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں۔ تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے۔(جاری) 

 ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔ او آئی سی نے عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب، ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ 

او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طٰہٰ نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو مسلسل یاد دہانی کرانی چاہیے، یہ قانون واضح طور پر مذہبی منافرت کی وکالت کی ممانعت کرتا ہے ‘ اس سانحہ کے خلاف پاکستان بھر میں یوم تقدیس قرآن منایا گیا کہ ریاستیں اور بین الاقوامی تنظیمیں اسلام سمیت الہامی مذاہب کی علامتوں، مقدس کتابوں، شخصیات اورعبادت گاہوں کی بے حرمتی کو جرم قرار دینے کیلئے قانون سازی کریں اور اجتماعی حکمت عملی مرتب کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ اسلام آباد سمیت ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سانحہ سویڈن کی شدید مذمت کی گئی سیاسی جماعتوں، وکلا، مزدوروں، تاجروں، اساتذہ، طلبا اور دیگر طبقوں کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالیں اور سویڈن پر معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید) کے کارکنوں نے بھی ملک بھر میں مظاہرے کیے‘ اور ملحد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد میں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی شدید مذمت کی گئی اور دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے واقعات روکنے اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے قانون سازی پر زور دیا گیا۔
 وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعہ کو ایک سازش قرار دیا اور متنبہ کیا کہ ایسی حرکت کوئی دوبارہ نہ کرے ورنہ جواب آنے پر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران سویڈن میں قرآن مجید کی توہین کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظو رکی گئی مذمتی قرارداد میں کہا گیا کہ نیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھ رہے ہیں جنھیں روکنے کیلئے کوئی بھی حکومت نہ تو قانون سازی کر رہی ہے نہ سیکورٹی کے ذریعے ایسے واقعات کو روکا جاتا ہے۔سویڈن میں ہونے والے واقعہ کی باقاعدہ طور پر سویڈن عدالت نے اجازت دی تھی،جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ وہاں کی حکومت کو اس واقعے کا پہلے سے علم تھا مگر اس نے جان بوجھ کر اسے نہیں روکا۔ (جاری) 

 اب ضرورت یہ ہے کہ اسلاموفوبیا پر مبنی واقعات سے دوسرے مذاہب کے خلاف واقعات کی طرح نمٹا جائے اور دنیا بھر کے ممالک ایسے قوانین بنائیں تاکہ کوئی بھی آدمی چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ کسی دوسرے مذہب کی مقدس شخصیات اور کتابوں کی توہین کرنے کی جسارت نہ کر سکے‘ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک لبرل معاشرہ ہے جہاں اظہار رائے کی مکمل آذادی ہے‘ جس کے لیے مغرب اقوام متحدہ کے آرٹیکل دس کا سہارا لیتا ہے۔ آرٹیکل 10 حکومتی مداخلت کے بغیر آپ کی اپنی رائے رکھنے اور آزادانہ طور پر ان کے اظہار کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حق پر کوئی پابندیاں ہیں؟اگرچہ آپ کو اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن اس کا استعمال ذمہ داری سے کرنا ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔اسی بنیاد پر‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے سویڈن سمیت پوری دنیا پر زور دیا گیا کہ اسلام سمیت تمام مذاہب‘ مقدس ہستیوں اور عقائد کا احترام کیا جائے۔ ناموسِ قرآن ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ سویڈن سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کسی مسلمان کو برداشت نہیں اس لئے دنیا کی تمام امن پسند‘ مہذب اقوام اور عالمی ادارے سوا ارب مسلمانوں کے دل دکھانے‘ ان کیلئے مقدس اور محترم شعائر اور علامات کیخلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کے واقعات روکنے کیلئے کردار ادا کریں۔  ہم اظہار رائے کیخلاف نہیں‘ مگر اسکی آڑ میں کسی کے مذہب اور مقدس شخصیات کی بے حرمتی‘ پراپیگنڈہ اور زہر پھیلانے کی دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اسلامی دنیا کے ساتھ مل کر مضبوط آٰواز اٹھانی ہے۔  ہمیں اس خبیث شخص کی خباثت کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔ پاریمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام پارلیمانی لیڈرزاور اقلیتی ارکان نے بیک آواز ہو کر سویڈن کے دل آزار واقعہ کی مذمت کی اور عالمی برادری بالخصوص لبرل اور سیکولر ممالک سے مطالبہ کیا کہ دنیا میں امن مقصود ہے تو اس طرح کے ملعونین کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی مقدَّسات میں سب سے اہم ذاتِ باری تعالیٰ، ذاتِ رسالت مآب اور قرآنِ کریم ہے، مزید تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآب کی عظمتِ شان اور آداب خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اپنی جان، مال، آبرو حتیٰ کہ اپنا سب کچھ ان مقدّسات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوئے، دنیا بھر کے مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا، اس میں وہ مسلمان تارکینِ وطن بھی شامل ہیں جو اْن ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں یا قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں۔سوال یہ ہے: ہم مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غورو فکر کا تقاضا کرتا ہے، یہ اہل مغرب کی بہت ہی گہری سازش ہے جسے سمجھنا ضروری ہے اور مسلم دنیا کے تعلیم یافتہ افراد آگے آئیں اور راہنمائی کریں۔  اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: اہانتِ رسول پر مبنی کارٹون چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دیدہ ودانستہ کی جا اقوامِ متحدہ کی سطح پر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائے اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دے اور امتیاز نہ برتے اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی ایک جامع مانع اور اجماعی تعریف کی جائے، کیونکہ ایک یا چند افراد کو زبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے تو ایک یا چند افراد کا ابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، اس مسئلے کا یہی ایک حل ہے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے ایک اور اہم نکتہ جس کی جانب توجہ بہت ضروری ہے سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے یہ آڈیو /وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جھرجھری طاری ہوجاتی ہے، دل دہل جاتا ہے، انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی، آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا، کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کرسکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا ہے پاکستان میں ایک اہم دستاویز ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے موجود ہے اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں، تو ایسے واقعات کے تدارک کے لیے بہترین نتائج مل سکتے ہیں‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حرمتِ قرآن کریم اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کیلئے وہ کٹ مرنے کو بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے حضرت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے گئے دینِ اسلام میں سب سے زیادہ شرف انسانیت پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام نے امن و آشتی اور صلہ رحمی کا درس دیکر اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ بلاشبہ فلاحِ انسانیت پر مبنی دینِ اسلام نے روز قیامت تک قائم و برقرار رہنا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و مقام اللہ جل شانہ کے آخری رسول کا ہے جس پر مہرتصدیق مقدس الہامی کتاب قرآن کریم کے ذریعے ثبت کی گئی ہے۔ اس طرح ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ارکانِ اسلام کا حصہ ہے جس کے منکرین کی سزا بھی قرآن مجید میں ہی متعین کردی گئی ہے۔ اسکے برعکس ختم نبوت کی منکر الحادی قوتوں کا اپنا ایجنڈا ہے جس کا ان کی جانب سے اور انکی سرپرستی میں شاتمین کی جانب سے شعائر اسلامی کی مختلف ہتھکنڈوں سے توہین‘ قرآن مجید کی بے حرمتی اور شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی صورت میں وقتاً فوقتاً اظہار کیا جاتا ہے الحادی قوتوں کو اس کا موقع بھی مسلم امہ میں درآنے والی فرقہ بندیوں‘ فروعی تنازعات اور ایمان کی کمزوریوں کو بھانپ کر ملا ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ مسلم امہ کی انہی کمزوریوں کی نذر ہو گئی جس کے احیائ￿ کیلئے مسلم دنیا کو امت واحدہ کے قالب میں ڈھلنے کی ضرورت ہے اور الحادی قوتوں کی اصل سازش یہی ہے کہ مسلم دنیا کو فرقوں‘ گروہوں اور فروعی مسائل میں الجھا کر امت واحدہ والی قوت نہ بننے دیا جائے کیونکہ امت واحدہ کی طاقت کے سامنے الحادی قوتوں کو اپنی موت نظر آتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سویڈن میں سرکاری سرپرستی میں کی گئی توہین قرآن کی پلید حرکت پر پوری مسلم دنیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر یکسو ہو کر ایسے واقعات کے سدباب کیلئے عملی اقدامات اٹھائے

ای پیپر دی نیشن