ابھی مون سون کا موسم باقاعدہ شروع نہیں ہوا لیکن اس سے قبل ہونے والی بارشوں نے ہی ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچادی ہے۔ گزشتہ سال مون سون کے موسم میں پاکستان میں جو جانی و مالی نقصان ہوا وہ اتنا غیر معمولی تھا کہ اس سے پہلے اتنا نقصان کبھی بھی نہیں ہوا۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں نے بھی اس نقصان کا احساس کیا تھا اسی لیے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس خود پاکستان آئے اور سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کئی اہم بین الاقوامی ادارے بار بار کہہ چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جن ممالک کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ لیکن ان وارننگز کے باوجود ہماری حکومتوں اور متعلقہ محکموں کے حکام مذکورہ اثرات سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔
اس وقت ملک بھر میں پری مون سون بارشوں کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے اس کی ذمہ داری بھی حکومت اور متعلقہ اداروں پر اس لیے ہے کہ ہر طرح کے اعداد و شمار موجود ہونے کے باوجود کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔ قدرتی آفات پر تو قابو نہیں پایا جاسکتا لیکن ان سے ہونے والے نقصان میں تو کمی لائی جاسکتی ہے، اور یہ تب ممکن ہوسکتا ہے جب حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہو اور متعلقہ محکمے اور ادارے قابل عمل منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن یہ تو بتارہی ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں موسلادھار بارش کی پیش گوئی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات والے شہروں اور میونسپل علاقوں کے لیے شہری سیلاب کے الرٹ جاری کیے گئے ہیں لیکن اس سب سے ہونے والے نقصان کو حکومت کیسے کم کرے گی اس سے متعلق کوئی حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آئی، البتہ یہ کہہ دیا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں تمام رسپانس ٹیموں اور این جی اوز کو چوکس تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ادھر، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے حالیہ بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک بھر میں 25 جون سے اب تک بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سب سے زیادہ اموات پنجاب میں ہوئیں جن کی تعداد 48 ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 20 اموات رپورٹ ہوئیں۔ بلوچستان میں 5 اور آزاد کشمیر میں 3 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، تقریباً ڈیڑھ ماہ کے دوران ملک بھر میں 30 مرد، 15 خواتین جبکہ 31 بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔رپورٹ میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 133 بتائی گئی ہے جن میں 49 مرد، 38 خواتین اور 48 بچے شامل ہیں۔ اس دوران ملک بھر میں 78 گھروں کو نقصان پہنچا۔ این ڈی ایم اے کے پیش کردہ اعداد و شمار سرکاری ہیں اور عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اصل نقصان سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہوتا ہے۔
ایک طرف پاکستان بارشوں کے تباہی مچانے والے سلسلے سے نمٹ رہا ہے اور دوسری جانب بھارت نے بغیر پیشگی اطلاع کے دریائے راوی میں ایک لاکھ 85ہزار کیوسک پانی کا ریلہ چھوڑ دیا ہے۔انڈس واٹر کمیشن کے مطابق، دریائے راوی میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔ دریائے چناب اور اس سے منسلک نالہ جات میں بھی آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے۔ گزشتہ سال بھی بھارت نے ایک لاکھ 73 ہزار کیوسک پانی چھوڑا تھا۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے ہدایت کی ہے کہ دریائے راوی سے منسلک اضلاع کی انتظامیہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے الرٹ رہے۔ دریائے راوی ماڑی پتن کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہونے پر دریا کنارے آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ دریائے راوی ماڑی پتن کے مقام سے 85 ہزار کیوسیک پانی کا ریلا گزرے سکتا ہے۔
محکمہ انہار کے مطابق، بالائی علاقوں میں بارشوں کے باعث ہیڈمرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کی آمد ایک لاکھ بہتر ہزار دو سو تراسی کیوسک جبکہ پانی کا اخراج ایک لاکھ اٹھاون ہزار دو سو تراسی کیوسک ہے۔ دریائے جموں توی میں پانی کا بہاو 13741کیوسک جبکہ مناور توی میں پانی 4048 کیوسک ہے۔برساتی نالوں میں پانی میں معمولی اضافہ ہوا ہے، نالہ ڈیک میں کنگرہ کے مقام پر پانی 220، نالہ پلکھو میں 235، نالہ لیک میں اورہ کے مقام پر 377کیوسک ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے کہا کہ آئندہ 24 گھنٹے میں دریائے چناب میں پانی کا بہاو دو لاکھ سے سوا دو لاکھ کیوسک تک رہنے کا امکان ہے جو کہ درمیانے درجے کا سیلاب ہوگا تاہم ہیڈ مرالہ سے 11 لاکھ کیوسک پانی کے اخراج کی گنجائش ہے۔
ابھی مون سون کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا اور یہ صورتحال ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ دو مہینے کے دوران مون سون کا موسم کیا قہر ڈھائے گا۔ بھارت سے تو خیر کی توقع ہی نہیں رکھی جاسکتی لیکن حکومت اور متعلقہ محکموں اور اداروں کا غفلت اور معاملات کو ٹھیک سے نہ سنبھال پانے پر باقاعدہ احتساب ہونا چاہیئے۔ آئندہ چند روز میں مون سون کا موسم شروع ہورہا ہے اور پچھلے سال ہم دیکھ چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ موسم شدید تر ہوتا جارہا ہے، لہٰذا حکومت اور متعلقہ محکموں اور اداروں کو ساری منصوبہ بندی اسی نقطہ نظر سے کرنی چاہیے کہ کس طرح اس موسم کے دوران جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت کا خود انتونیو گوتریس بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان جن ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہا ہے ان کے لیے ترقی یافتہ ممالک ذمہ دار ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مذکورہ منصوبہ بندی کے ضمن میں اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک سے بھی مدد لے تاکہ نقصان سے بچنے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ سے کہا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کو مشینری اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے کے لیے خود ترقی یافتہ ممالک سے رابطہ کرے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے پاکستان کو یہ چیزیں مہیا کی جائیں تاکہ موسم کی شدت کے اثرات سے بچنے کے بروقت اقدامات کیے جاسکیں۔