ملک میں نو مئی کو کچھ اور نہیں تو ایک بغاوت ضرور ہوئی اس دن سے آج تک آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر روز اخبارات اور ٹیلیویژن چینلز پر مذمتوں کا سیریز ہے۔ شہدا کے ورثا غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ مختلف مکاتب فکر، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے افراد اساتذہ ہو یا طالب علم، صنعتکار ہوں یا ملازمت پیشہ، وکلا برادری، فنکاروں، کھلاڑیوں غرض یہ کہ شاید ہی کوئی ہو جس نے مذمت نہ کی ہو۔ مذمت کرنے والے افراد نو مئی کو باغیوں کا نشانہ بننے والے جناح ہاوس لاہور اور پشاور ریڈیو پاکستان کی عمارت کا دورہ کر رہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ باغیوں اور شرپسندوں نے کیسے قومی املاک کو نقصان پہنچایا، جلاو گھیراو¿ کیا، توڑ پھوڑ کی، شہدا کہ یادگاروں کو نقصان پہنچایا۔ یعنی سارا پاکستان دیکھ چکا ہے کہ نو مئی پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور ملکی دفاع کے ضامن اداروں پر حملہ کر کے قبضے کی کوشش ہوئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سازش اور بغاوت میں شریک افراد کے خلاف اب تک کیا کارروائی ہوئی ہے۔ ماسوائے اس کے کہ کیس فوجی عدالتوں میں چلانے جائیں گے یا کہیں اور، کون پاکستانی شہری ہے اور کون دوہری شہریت کا حامل ہے اس کے ساتھ کیا سلوک روا جائے، کون کتنا بڑا اور بااثر سیاست دان ہے اسے گرفتار کرنا ہے یا نہیں، کسے فوری طور پر پکڑنا ہے کسے گرفتار کرنے کے لیے راہ ہموار کرنی ہے۔ کس کے لیے کہاں سے کوئی راستہ نکالنا ہے۔ عدالتوں کے پاس وقت ہے یا نہیں کیسز کب سنے جائیں گے۔ چھٹیوں کے بعد یا کچھ اور کرنا ہے۔ ہم اسی بحٹ میں ہیں افواج پاکستان نے خود احتسابی کے عمل میں کارروائیاں کر دی ہیں لیکن دیگر ذمہ داران میں سے ابھی کچھ یا تو گرفتار نہیں ہوئے روپوش ہیں یا پھر ضمانتیں حاصل کر رہے ہیں۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جو ہمیں نظام میں موجود خامیوں کا واضح انداز میں بتا رہا ہے۔ افواج پاکستان کے اندرونی اور تیز تر احتساب کا عمل چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کی ہونے والی پریس کانفرنس میں آپ دیکھ چکے ہیں۔ باقی کیسز کہاں چل رہے ہیں اور ان پر کیا کارروائی ہوئی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن جنہوں نے قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں اور قانون توڑنے والوں کو نشان عبرت بھی بناتے ہیں تاکہ ایسا سوچنے والوں کو ایسا کرنے والوں کا انجام یاد رہے۔ پاکستان میں تو ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کون کون شریک ہے اور کیس کس عدالت میں چلنا چاہیے انگلینڈ میں کیس بھی چلا ہے اور فیصلہ بھی ہو گیا ہے وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ توڑپھوڑ کرنے والے خود نون لیگ نے بھیجے تھے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ لندن کی ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ نے جرم ثابت ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی اکاون سالہ عامر وسیم چوہدری کو پاکستان ہائی کمیشن کو نقصان پہنچانے کا مجرم قرار دیا ہے۔ اس شدت پسند نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے اٹھارہ مئی کو پاکستان ہائی کمیشن کو نقصان پہنچانے پر ’کرمنل ڈیمج‘ کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ میں ابتدا میں جرم سے انکار کرنے والے عامر وسیم نے شواہد دیکھنے کے بعد جرم تسلیم کر لیا۔ پاکستان میں ہوتا تو یقینا کہتا کہ ویڈیو جعلی ہے ایسی ویڈیوز ایڈیٹنگ سے بنائی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف لائرز ونگ گرفتاری پر احتجاج اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتا۔ یہ بھی کہا جاتا کہ توڑ ہھوڑ کرنے والے تو نون لیگ نے بھیجے تھے، یہاں کوئی قانون نہیں، ملک میں جنگل کا قانون ہے، پرامن احتجاج کرنے والوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کہا جا سکتا تھا لیکن انگلینڈ میں یہ سب کب تک کہا جا سکتا تھا۔ وہاں پی ٹی آئی کے پر امن احتجاج کرنے والے نے ناقابل تردید شواہد اور ثبوت دیکھنے کے بعد جرم تسلیم کیا عدالت نے عامر وسیم چوہدری کو پاکستان ہائی کمیشن کو پہنچائے گئے نقصان کا ازالہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسے تمام مقدمات کو بھی ایک معاہدے کے تحت انگلینڈ کی عدالتوں میں بھجوا دینا چاہیے یا ہار وہاں سے کچھ ججز کو پاکستان لے آنا چاہیے تاکہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر ایسے تمام مقدمات کا فیصلہ کریں اور ملک کو اس مصیبت سے نکال کر آگے بڑھنے میں آسانی پیدا کریں۔ ورنہ ہمارے نظام میں تو یہ فیصلہ کرنے میں ہی کتنا وقت لگ جائے کہ مقدمہ کب، کہاں اور کیسے چلانا ہے۔ ہمارے وزیراعظم تو آج بھی بیانات جاری کر رہے ہیں کہ عمران خان افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے خلاف مذموم اور بدنیتی پر مبنی مہم چلا رہے ہیں یعنی نو مئی کی توڑ پھوڑ سے ان کا دل نہیں بھرا اب وہ ایک نئے مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور ادارے کیا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ "قاتلانہ حملے کی دھمکی دینے کے لیے پراکسیوں کے استعمال کی چال بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے، ریاستی علامتوں پر منصوبہ بندی سے حملے ناکام ہونے کے بعد وہ واضح طور پر بے چین ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ ان کی دھمکی، تشدد اور نفرت کی سیاست کا وقت ختم ہو گیا ہے، ایسی قابل مذمت حرکات کے ذریعے وہ صرف اپنے آپ کو بے نقاب کر رہے ہیں، مہم کا بنیادی مقصد ذاتی مفاد اور اقتدار پر قبضے کو ہر چیز پر ترجیح دینا ہے۔نو مئی کے یوم سیاہ کے لیے بھی ایسے ہی ذہن سازی کی گئی تھی اس کے منصوبہ ساز، سہولت کار اور ہینڈلرز کو دو ٹوک پیغام ہے کہ ان کی ہر سازش کچل دیں گے۔"
جناب وزیراعظم یہ کوئی باکسرز کی فائٹ تو نہیں کہ اس سے پہلے بیانات کے ذریعے ایک ماحول بنایا جائے لوگوں کو فائٹ دیکھنے کے لیے تیار کیا جائے، فائٹ کی اہمیت کو بڑھایا جائے اور بیانات دیے جائیں تاکہ شائقین کے جوش و جذبے میں اضافہ ہو۔ جناب عالی یہ معاملہ صاف طور پر ملک کو نقصان پہنچانے کا ہے۔ قوم کو آپ کے بیانات سے غرض نہیں لوگ ذمہ داروں کے خلاف جلد اور فوری کارروائی کے بعد اس باب کو بند کرنے اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے منصوبوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ حکومت روزانہ کئی بیانات جاری کر کے معاملے کو طول دینے کے بجائے فوری انصاف کا راستہ اختیار کرے۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ اگر کہیں سے کوئی راستہ لینا ہے تو عامر وسیم چوہدری کے کیس کو مثال بنا سکتے ہیں۔ حکومت کچلنے کی بات کرتی ہے وہ تو ابھی تک روپوش افراد کو گرفتار نہیں کر سکی۔ دیکھتے ہیں بلند و بانگ کرنے والے کب عملی اقدامات کرتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی کا بیان قابل غور ہے وہ کہتے ہیں "چیف جسٹس بتائیں شہدا کی یادگار پر حملہ کرنے والے آزاد کیوں ہیں؟ فوج کے بارے میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اگر موجودہ عدالتیں فیصلہ نہیں دیں گی تو آرمی عدالت فیصلہ دے گی۔ پاکستان کے عوام اور پاک فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان کی فوج کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے ستر فیصد مہم بھارت سے چلائی جا رہی ہے۔" علامہ طاہر محمود اشرفی نے اور بھی سنجیدہ سوالات کیے ہیں۔ کیا انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے پاس کوئی جواز ہے یا ہماری پارلیمنٹ کے پاس کوئی جواز ہے کہ وہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اندرونی طور پر آزادی اور خودمختاری پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے۔ اس حوالے سے اب تک فیصلہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر شرپسندوں کو کچلنا ہے تو پہلے انہیں گرفتار کرنا ہو گا۔
آخر میں احمد شمیم کا کلام
کبھی ہم خوبصورت تھے"
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی !
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔۔۔امی !
تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوو¿ں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو