صحافی دوستوں کا دورہ¿ برسلز

1980کی دہائی میں اسلام آبا د سے نجی طورپر نکالے واحد انگریزی روزنامہ ”دی مسلم“ کا جوان اور متحرک رپورٹر ہونے کی وجہ سے میں اس شہر میں مقیم سفارتکاروں کے لئے ”اندھوں میں کانا راجہ“ ہوگیا تھا۔تقریباََ ہر روز کسی نہ کسی سفارتی تقریب میں شرکت کے علاوہ سفارت کاروں سے ون آن ون ملاقاتیں بھی کرنا ہوتیں۔ہماری ”ایجنسیاں“ مذکورہ ملاقاتوں اور تعلقات کی بابت ناخوش محسوس کیا کرتی تھیں۔زمانہ بھی جنرل ضیاءالحق کے استبداد سے گھبرایا ہوا تھا۔ ایمانداری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ ان دنوں کے طاقت ور ترین سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن ایک ذہین شخص تھے۔جنرل ضیاءکے بااعتماد مشیر جنرل عارف بھی بہت سیانے تھے۔ وہ ”ایجنسیوں“ کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ معروف انگریزی اخبارات کے لئے لکھنے والوں کے ساتھ درگزر سے کام لیا جائے۔درگزر دنیا کو یہ گماں دلانے میں کامیاب رہے گا کہ پاکستان میں مارشل لاءکے باوجود یہاں کا پریس کافی توانا اور بے باک ہے۔ اسے قابو میں رکھنے کے لئے محاورے والے مخملی ہاتھ استعمال کئے جائیں۔قصہ مختصر میری نام نہاد ”جی داری“ نے مجھے ”بہادر“ مشہور نہیں کیا۔مخصوص حالات میں بس ”داﺅ“لگ گیا۔
بہرحال ان دنوں سے استوار ہوئے تعلقات کی بدولت میں رواں صدی کے آغاز تک مختلف ممالک مدعو کیا جاتا رہا۔ان دعوتوں کی بدولت ایسے کئی ممالک بھی دیکھ لئے جہاں جانے کا میں ذاتی وسائل سے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یوں جوانی ہی میں بیرونی سفر کے چاﺅ بھی اترگئے۔اب اگر کوئی اسلام آباد سے دو دن کے لئے میرے آبائی شہر لہور جانے کی دعوت بھی دے تو عموماََ کنی کتراجاتا ہوں۔مجھے البتہ اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے جب میرے شعبے کے نسبتاََ نوجوان صحافیوں کو بیرون ملک دوروں کا موقعہ ملتا ہے۔ دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ صحافی کی ذہنی وسعت کے لئے ایسے دورے انتہائی ضروری ہےں۔ بدقسمتی سے تاہم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارا معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔اس تقسیم کو تلخ ترین بنانے میں ہمارے ہی چند ساتھیوں نے نامور صحافیوں کو ”لفافہ“ ثابت کرنا شروع کردیا۔ ”اپنے ہی گھر“ سے اچھالے کیچڑنے بالآخر صحافت کو بحیثیت مجموعی ہمارے عوام کے لئے ناقابل اعتبار بنادیا ہے۔مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ صحافت جو میرا بنیادی عشق ہے اپنی ساکھ اب کیسے بحال کرپائے گی۔ ہوسکتا ہے میرے نوجوان ساتھی اس ضمن میں کوئی راہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔یہ راہ تلاش کرنا ویسے بھی ان کے لئے اپنے پیشے کی تقدیس بحال کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
صحافیوں کے غیر ممالک اور عالمی اداروں سے روابط کی طولانی تمہیدکے بعد اصل موضوع کی جانب بڑھنا پڑے گا۔ گزشتہ ہفتے ہمارے صحافیوں کا ایک گروپ یورپی یونین نے برسلز بلوایا۔ اس گروپ میں حامد میر جیسے سینئر ترین صحافیوں کے علاوہ ماریہ میمن جیسی کہنہ مشق اینکر بھی شامل تھیں۔ شہباز رانا بھی اس کا حصہ تھا جس نے نہایت لگن سے پاکستان کے اقتصادی مسائل کو سادہ زبان میں بیان کرنے کا ہنر سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ وفد میں ابصاءکومل بھی شامل تھیں۔وہ انتہائی نرم لہجے میں مشکل ترین سوال اٹھانے کے ہنر پر قابل ستائش گرفت کی حامل ہیں۔جن افراد کے نام لئے ہیں ان سے مناسب شناسائی ہے۔حامد میر اگرچہ بہت پرانا دوست ہے۔ذاتی شناسائی کی بدولت اصرار کروں گا کہ انہیں یورپی یونین سات روز کے لئے برسلز بلواکر ”خرید“ نہیں سکتی تھی۔ وہ آزاد منش افراد ہیں۔ ان کے ذہن بہلا پھسلاکر تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں۔
”چاچاخواہ مخواہ“ کی طرح مذکورہ بالا خیالات کے اظہار کے لئے اس لئے مجبور ہوا کیونکہ موجودہ حکومت کے کئی سرکردہ افراد اور چند ریاستی اداروں میں موجود ان کی سرپرست یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ حال ہی میں برسلز مدعو کئے جانے والے صحافی پاکستان کے لئے ”مایوس کن“ خبریں پھیلانے کے لئے بطور ”آلہ کار“استعمال ہوئے۔
نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے ایک دیرینہ حامی لندن میں پاکستان کے چند صحافتی اداروں پر بھاری جرمانے عائد کروانے کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں۔ان سے منسوب ایک ٹویٹ نے بھی یہ تاثر دیا کہ جیسے یورپی یونین تحریک انصاف سے”مل گئی“ہے۔ صحافیوں کو برسلز بلواکر یورپی یونین والوں نے انہیں مذکورہ جماعت کے بیانیے کو تقویت دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔مجھے خبر نہیں کہ جو ٹویٹ میری نظر سے گزرا ہے وہ واقعتا ان ہی صاحب کے مستند اکاﺅنٹ سے جاری ہوا۔ اس ٹویٹ سے قطع نظر تاہم میری چند سرکاری افسروں سے بھی اتفاقاََ ملاقات ہوگئی۔ وہ ہماری وزارت خارجہ میں مقیم اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ بھی یہ محسوس کرتے سنائی دئے کہ برسلز میں پاکستانی صحافی مدعو کرنے کا کچھ تو ایسا مقصد تھا ”جس کی پردہ داری“ ہے۔ مجھے گماں ہے کہ لندن میں مقیم ڈان کی نامہ نگار تک بھی ایسا ہی تاثر پہنچا ہوگا۔اتوار کے روز چھپے اخبار میں لہٰذا ان کی ایک سٹوری چھپی ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے نام لئے بغیر برسلز گئے چندصحافیوں سے گفتگو کو رپورٹ کیا ہے۔
آج کی خبر نہیں۔ 1980یا 1990کی دہائی میں جب بھی میں کسی غیر ملک وہاں کی حکومت کے توسط سے جاتا تو وہاں قیام کے دوران ملے وقفے میں پاکستان کے سفارتخانے سے رابطے کی کوشش کرتا۔ بسااوقات کسی سفیر سے بالآخر ملاقات ہوجاتی تو وہ ملتے ہی اس امر پر ناراضگی کا اظہار کرتے کہ میں نے انہیں اپنی آمد سے پہلے مطلع کیوں نہیں کیا تھا۔میرا ”آتش“ان دنوں ضرورت سے زیادہ منہ پھٹ ہوا کرتا تھا۔ یہ بات سنتے ہی ترنت جواب دیتا کہ میں حکومت پاکستان کا ملازم نہیں صحافی ہوں۔مجھے سفیر صاحب یا حکومت پاکستان نے ٹکٹ دے کرا س ملک نہیں بلایا ہے جہاں میں فی الوقت کچھ دنوں کو آیا ہوں۔ میرے قیام اور سفری معاملات کے بھی وہ ذمہ دار نہیں۔ میں لہٰذا پاکستانی سفارت خانے کو اپنی ”آمد کی رپورٹ“دے کر سرکاری ملازموں کی طرح اس سے ”ہدایات“ لینا لازمی تصور نہیں کرتا۔ خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ میری گستاخی خوش دلی سے برداشت کرلی جاتی۔
مجھے گماں ہے کہ برسلز میں موجود ہمارے سفارتخانے کے علاوہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے یورپی یونین سے ڈیل کرنے والے چند افسران نے بھی برسلز گئے صحافیوں کے بارے میں ویسے ہی تحفظات محسوس کئے ہوں گے جن کا مجھے ماضی میں سامنا کرنا پڑا تھا۔بہرحال وجہ کچھ بھی رہی ہو تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں رواں برس کے اختتام تک ہر صورت انتخاب کروانا لازمی تصور کررہی ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے ساتھ ان دنوں ہوا سلوک انہیں”انسانی حقوق“ سے روگردانی محسوس ہورہا ہے۔یہ ادارہ اس امر کا بھی خواہاں ہے کہ تحریک انصاف کو آئندہ انتخاب میں بھرپور حصہ لینے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ تاثر یہ بھی ابھرا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان کو جی ایس پی کی بدولت اپنی ٹیکسٹائل سے منسلک اشیاءکی یورپی ممالک کو برآمد کرنے کے لئے ٹیکس کے حوالے سے جو سہولتیں میسر ہیں وہ واپس بھی لی جاسکتی ہےں۔
سفارت کاری کا عاجز طالب علم ہوتے ہوئے میں اس تاثر کو رد کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ یورپی یونین نے مذکورہ بالا پیغامات دینے کے لئے ہی میرے صحافی دوستوں کو برسلز مدعو کیا ہوگا۔ فرض کیا مقصد یہ ہی تھا تب بھی اس میں عجب بات کیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کا ہر ملک اپنا بیانیہ ”غیر سفارتی ذرائع“ سے وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کے لئے صحافیوں ہی سے رجوع کرتا ہے۔یورپی یونین نے بھی اگر وہ راہ اپنائی تو کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ میرے ساتھیوں کو بلکہ سلام کہ انہوں نے یورپی یونین کے دلوں میں موجود خدشات کو ہمارے روبرو رکھ دیا۔ خدارا ”پیغامبروں“ کی نیت پر سوال اٹھانے کے بجائے ”پیغام“ پر غور کریں۔

ای پیپر دی نیشن