اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
جیلوں میں اسیر قیدی خواتین کے لیے ایک اہم ایشو کے حوالے سے 30جون کو ایک کالم لکھا ”کون کرے گا اس پر بات“۔ کالم کا منظر عام پر آنا تھا کہ لاہور پریس کلب سے کئی سینئرساتھیوں اور قارئین سے بھی کافی بڑی تعداد نے قیدی خواتین کے ایشو کو ہائی لائٹ کرنے پر پذیرائی بخشی۔ حکومت، انتظامیہ اور آئی جی جیل خانہ جات کی توجہ اس حساس ایشو کی طرف مبذول کرانے پر میرے اس کالم کو ایک بڑا، بروقت اور مستحسن قدم قرار دیا۔
کالم لکھے جاتے ہیں، پڑھے جاتے ہیں۔ آن لائن پڑھنے والوں کی تعداد بھی اب لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ کسی بہت ہی توجہ طلب کالم پر جب اربابِ اختیار کی توجہ فوری ایکشن کی طرف مبذول ہو جائے تو بے حد طمانیت محسوس ہوتی ہے۔
”کون کرے گا اس پر بات“ کالم بھی فوری توجہ کا متقاضی تھا۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب نے اس کا ناصرف نوٹس لیا بلکہ کالم میں جس معاملے کی نشاندہی کی گئی تھی اُسے حل کرنے کے لیے عملدرآمد کا بھی آغاز ہو گیا۔
جرم ہرگز تخصیص نہیں کرتا کہ کوئی مرد ہے یا عورت۔ جرم کسی سے بھی سرزد ہو جائے ، جرم کی سزا ہر جرم کرنے والے کو جرم کے مطابق ملتی ہے۔ ملک میں دو طرح کے قوانین ہیں۔ فوجداری اور سول۔ اگرچہ ہمارے ہاں شرعی او ر لیبر قوانین بھی نافذالعمل ہیں لیکن ان میں سول اور فوجداری ایسے قوانین ہیں جن سے عمومی طور پر ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے۔
جہاں قابل دست اندازی پولیس جرم سرزد ہو ، پولیس حرکت میں آتی ہے۔ اور تھانہ میں جرم کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج کر لیا جاتا ہے۔ جس میں جرم کے مطابق دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔ جرم کیونکہ قابل دست اندازی پولیس ہوتا ہے اس لیے پولیس ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں لاتی ہے۔ یہ علاقہ مجسٹریٹ کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ پولیس کو زیر حراست ملزم کا کتنے روز کا جسمانی ریمانڈ دیتے ہیں۔ عموماً جسمانی ریمانڈ 14دن تک محدود ہوتا ہے۔ لیکن متعلقہ کورٹ اس سے کم روز کا بھی ریمانڈ دے سکتی ہے۔ ریمانڈ ختم ہونے پر زیر حراست ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ جب تک ملزم کی عدالت سے ضمانت نہ ہو اُسے جیل میں ہی رکھا جاتا ہے۔ بعد از ضمانت ہی اُسے رہائی ملتی ہے یا مقدمے سے بری کر دیا جاتا ہے۔
جیسے کہ میں نے کہا ، جرم مرد اور عورت میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ فوجداری جرم کرنے والا کوئی بھی ہو، حتیٰ کہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو اُسے گرفتاری، جیل،کیس کے ٹرائل اور سزا و جزا کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
جیل کی اپنی ایک دنیا ہے۔ جہاںاسیر افراد کا باقی دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ جیل مینوئل جو اجازت دیتا ہے اُس کے مطابق قیدیوں اور حوالاتیوں کو کھانا اور دیگر سہولیتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ موت کی سزا پانے والے قیدیوں کو ڈیتھ سیل میں رکھا جاتا ہے۔ یہ ڈیتھ سیل درحقیقت جیل کے اندر ایک اور جیل ہوتی ہے جس میں بند مرد اور خواتین قیدیوں کو بڑے ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈیتھ سیل کے قیدیوں کو روز مرنا اور جینا ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ جس کی نشاندہی بہت ضروری تھی۔ مختلف جیلوں میں بند خواتین قیدیوں کے متعلق جو معلومات مجھے ملیں، بڑی تکلیف دہ تھیں۔ اپنی صحافتی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے خواتین قیدیوں کی مشکلات کو میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم کا موضوع بنایا۔ ایسے ایشو کو احاطہ تحریر میں لایا جس پر گھروں اور ہمارے معاشرے میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ اس ایشو کو چھپایا جاتا ہے اور ہر ممکن طریقے سے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
جس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ میں نے اُس ایشو پر ناصرف قلم اٹھایا بلکہ پورا کالم لکھ دیا۔ ایشو تھا ، جیل میں قید خواتین کو ماہواری یا حیض کے دنوں میں مطلوبہ تعداد میں ”سینٹری پیڈز“ کی عدم فراہمی۔ یہ ایک بڑا معاملہ تھا۔ پیڈز کی عدم فراہمی سے جیل میں قید خواتین مختلف قسم کی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی تھیں، اُن کی دادرسی کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
رولز کے مطابق ہوم ڈیپارٹمنٹ اور جیل خانہ جات کی ذمہ داری ہے کہ جیل میں قید خواتین کو ماہواری یا حیض کے دنوں میں سینٹری پیڈز فراہم کرے۔ کالم میں اس مطلوبہ تعداد کا بھی ذکر تھا کہ ہر خاتون قیدی کو کتنے سینٹری پیڈز فراہم کرنا ضروری ہیں۔ کالم میں گزشہ پانچ برسوں کے مکمل اعدادوشمار دئیے گئے تھے کہ پنجاب کی کتنی جیلوں میں کتنی خواتین قید ہیں جنہیں مطلوبہ تعداد میں سینٹری پیڈز فراہم نہیں کئے گئے۔ جس سے خواتین قیدیوں کے جسمانی عوارض اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ جن کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔
قانون اور جیل رول بھی کہتا ہے کہ جو خاتون حوالاتی یا قیدی کی حیثیت سے جیل میں ہو گی، جیل حکام ماہواری کے دنوں میں ضرورت کے مطابق ُاُسے سینٹری پیڈز فراہم کریں گے۔ چونکہ ایسا نہیں ہو رہا تھا، عدم فراہمی تھی جس کے باعث بیماریاں بڑھ رہی تھیں اس لیے ضروری سمجھا کہ اس معاملے کو ہائی لائٹ کیا جائے تاکہ ارباب اختیار کی توجہ اس اہم اور ضروری معاملے کی طرف مبذول ہو سکے۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ ”اندر کی بات“ نے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو نا صرف اس معاملے کی طرف متوجہ کیا بلکہ انہوں نے آفیشل لیٹر بھیج کر ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھی صورت حال سے آگاہی دی۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نذیر کے نوٹس پر پنجاب کی جیلوں میں خواتین کو مطلوبہ تعداد میں سینٹری پیڈز کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔ اس نوٹیفکیشن کی کاپی مجھے بھی ارسال کی گئی جس کے مطابق سینٹرل جیل لاہور میں 221خواتین قیدی ہیں جن کو 4420سینٹری پیڈا فراہم کئے جا چکے ہیں۔ سینٹر ل جیل گوجرانوالہ میں قید 66خواتین کو 120پیڈزکی فراہمی کی گئی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل قصور میں 17خواتین کے لیے 97پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں 42قیدی خواتین کے لیے 175سینٹری پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کو 68خواتین کے لیے 100پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل نارووال کی 2قیدی خواتین کے لیے 4سینٹر ی پیڈز۔ ڈسٹرکٹ جیل حافظ آباد میں 10خواتین کے لیے 145پیکٹ، سینٹرل جیل ساہیوال میں 15خواتین کے لیے 92سینٹری پیڈز کے پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ میں 27خواتین کے لیے 60پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل پاکپتن میں 9خواتین کے لیے پیڈز کے 30پیکٹ، سینٹرل جیل راولپنڈی میں 272 قیدی خواتین کے لیے 3580سینٹری پیڈز کے پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں 18خواتین کے لیے پیڈز کے 120پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں 17خواتین کے لیے 1449پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں 20خواتین کے لیے 192پیڈز، سینٹرل جیل میانوالی میں 10خواتین کے لیے 592پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں 23قیدی خواتین کے لیے 146پیڈز کے پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور میں 4خواتین کے لیے 20پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل بھکر میں ایک خاتون قیدی کے لیے 52پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی میں قید10خواتین کے لیے 516پیکٹ، ویمن جیل ملتان میں قید 73خواتین کے لیے 500سینٹری پیڈز، سینٹرل جیل بہاولپور میںقید 12خواتین کے لیے پیڈز کے 72پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل بہاولنگر میں 7خواتین کے لیے 72پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان میں قید 14خواتین کے لیے 60پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل ڈی جی خاں میں قید 8خواتین کے لیے 107پیکٹ، ڈسٹرکٹ جیل لیہ میں قید ایک خاتون کے لیے 10پیڈز، ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں قید 98خواتین کے لیے 200پیکٹ پیڈز اور ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید 18خواتین کے لیے 232پیکٹ پیڈز فراہم کئے جا چکے ہیں۔ کالم ”اندر کی بات“ کی یہ بڑی کامیابی ہے۔