گورنر پنجاب اور ’صدر گھر‘ کو پہنچائی گئی شکایات

اس وقت ملک کو کئی چیلنجز درپیش ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی درستگی ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی اور بجلی کے بڑھتے نرخوں سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کے سہارے بجٹ تو پیش کردیا ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط کے سامنے عوام کو ڈالنا بھی آزمائش سے کم نہیں ہوگا۔اپوزیشن کے مطالبے زور پکڑتے جارہے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کروادئیے جائیں یا ان کے مینڈیٹ کو عزت دیتے ہوئے حکومت ان کے حوالے کی جائے۔اس گومگو کی کیفیت میں حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لئے اور اپنی پکڑ برقرار رکھنے کی خاطر کیا اقدامات کرتی ہے یہ تو آنے والے کچھ ہفتوں یا مہینوں میں طے ہو جانا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ حکومت کو جس سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت پڑے گی وہ اس کے اتحادیوں کی ہے کیونکہ انہی کے سہارے اپنی حکومت قائم کئے ہوئے ہیں اور اس میں سب سے بڑے کھلاڑیوں کی تعداد پیپلز پارٹی کی ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی صوبوں میں اپنے گورنرز اورایوان صدر میں خود آصف علی زرداری کی صورت میں براجمان ہیں۔آصف علی زرداری جنہیں سیاست کا زیرک اور ماہر کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے۔ملکی سیاست میں تدبر کے ساتھ پیش رفت جاری رکھے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں  لاہور آمد پر صدر مملکت آصف علی زرداری کا گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے استقبال کیا۔اس موقع پر راجہ پرویز اشرف،سمیت پارٹی کے سینئر رہنمائوں ،وزیر خزانہ پنجاپ مجتبی شجاع الرحمن،آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور دیگر موجود تھے۔صدر پاکستان کا گورنر ہاؤس لاہور پہنچنے پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں راجہ پرویز اشرف، نیئر بخاری،سید حسن مرتضی،رانا فاروق سعید، سردار علی، داؤد احمد،حاجی عزیز الرحمن چن،افضل چن، تنویر اشرف کائرہ،نواب شہزاد، احسن رضوی نے  ان سے ملاقات کی۔آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ زندگی میں ہر کسی پر آزمائش آتی ہے اور ہر آزمائش کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔جتنی تنقید مجھ پر ہوئی کسی اور پر نہیں ہوئی۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا ، ٹی وی میں میری غیبت ہوتی ہے جسے اپنے لیے ثواب سمجھتا ہوں۔ہمارا ایمان ہے جانا اس دن ہے جب مولا نے لے جانا ہے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے ہر بات دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی گروپنگ نظر اتی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری چودھری شجاعت حسین کے گھر بھی گئے۔ملاقات کا مقصد چودھری شجاعت کی تیمارداری کرنا تھا۔آصف علی زرداری نے کہا کہ بھارت میں الیکشن ہوئے آپ نے مودی میڈیا سنا ہو گا۔ مودی میڈیا گروپ ان کے سپورٹرز اور سہولت کاروں نے بنایا۔ مودی میڈیا اپنی سوچ لوگوں تک پہنچا کر فیصلے اپنے حق میں کراتے ہیں۔مودی کے کھرب پتی دوستوں نے مودی میڈیا بنا دیا۔پیپلز پارٹی کی ہمیشہ کردار کشی کی گئی جس کا اس نے مقابلہ کیا۔ملک چلانے کے لئے صرف فنانس پالیسی نہیں اور بھی چیزیں درکار ہوتی ہے۔ہمارے کچھ دوستوں کو ایگریکلچر پالیسی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ٹیکس آئی ایم ایف کے دباؤ پر لگ رہا ہے۔ہم نے اپنی انکم میں سے ہی کچھ حصہ ٹیکس دینا ہے۔صدر مملکت نے لاہور کے دورے کے دوران کارکنوں کے مسائل بھی سنے ان کے گلے شکوے بھی ان تک پہنچے بتایا یہی گیا ہے کہ ان کے دورے کا مقصد کئی حوالوں سے اہم ہے ایک تو ان کی دلی خواہش ہے کہ پنجاب میں پیپلز اپنے پائوں جمائے ۔اس کے لیے وہ پنجاب میں مضبوط تنظیم سازی کے خواہاں ہیں قبل ازیں جو بھی کو ششیں اس سلسلے میں کی گئیں وہ کارگر نہیں ہوسکیں جس کی وجہ پنجاب کے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا ایک پیج پر نہ ہونا ہے اسی وجہ سے تنظیم سازی کی کوششوں میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔اگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کے قائدین کی اپنی الگ الگ سوچ نظر آتی ہے اس کی وجہ سے وسطی اور جنوبی پنجاب کی تنظیم سازی  بھی مسائل کا شکار ہی رہتی ہے۔اگر پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی تنظیم سازی کے حوالے سے ہیجانی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکتی تو سیاسی میدان میں اس کے لیے مسائل کا انبار ہی رہے گا جس کو عبور کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہوگا اس سلسلے میں صدر مملکت کی ہدایت پر اب کتنا عمل ہوتا ہے اور پنجاب کے رہنما ایک پیج پر پیپلز پارٹی کیسے آسکتے ہیں یہ سوال بڑا اہم ہے ایک اور بات جو بتائی گئی ہے کہ پنجاب کے متعدد پی پی رہنما گورنر پنجاب کو اپنی شکایات پہنچاتے ہیں اور بعض رہنما صدر گھر جاکر بھی شکایات کرتے ہیں اس کے لیے کیا لائحہ عمل تیار ہوگا یہ بلی جلد تھیلے سے باہر آجائے گی۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن