بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر امیر سے غریب تک ہر طبقہ متاثر ہوا کثیر تعداد میں صاحب حیثیت افراد اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر سولر لگوا کر بجلی کے بلوں سے خود کو بچانے کی تگ و دو میں لگ گئے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی کے فی یونٹ ریٹ مسلسل بڑھنے سے عام صارف جس کے ذرائع آمدن انتہائی محدود ہیں مالی طور پر زیر بار آگیا ۔عام شہریوں کے چند ہزار کے بل ہزاروں روپے تک پہنچ گئے جس سے ہر گھر بری طرح سے متاثر ہواکرپشن اور بدانتظامی کے خاتمے کیلئے بھی حکومتی اقدامات نئے نئے انداز سے جاری رہنا خوش آئند امر ہے کرپشن کے مکمل خاتمے، میرٹ اور شفافیت کیلئے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اپنی کابینہ کے ساتھ مسلسل مشاورت میں رہتے ہیں۔ مختلف محکموں کو سمارٹ کرنے کیلئے ڈائون سائزنگ کی کوشش نیا اقدام ہے تاہم جہاں تک عام صارفین کیلئے بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے بوجھ کا تعلق ہے تو اس صورتحال کا وزیراعظم محمد شہبا ز شریف نے نوٹس لیا اور 200 یونٹس تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے 50 ارب روپے کے ریلیف کا اعلان کردیا جو ترقیاتی فنڈز سے لئے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے دوٹوک کہہ دیا کہ وفاقی حکومت کے اس اقدام سے اڑھائی کروڑگھریلو صارفین صارفین جو کل بجلی صارفین کا94 فیصد بنتے ہیں کو جولائی،اگست اورستمبرمیں چار روپے سے سات روپے فی یونٹ فائدہ ہو گا ۔کراچی بندرگاہ پر برآمدات اور درآمدات کی مد میں 1200 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے قومی خزانہ کو سالانہ 80 سے 90 ارب روپے کی بچت ہو گی بلوچستان کی طرز پر ملک بھر میں تیل پر چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے تقریب میں اپنے کوئٹہ کے دورے کا ذکر کیا اور بتایا کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا معاہدہ کیا گیاہے یہ ایک تاریخ ساز اقدام ہے۔ جس سے قومی خزانہ کو 80 سے 90 ارب روپے کی سالانہ بچت ہو گی بلوچستان میں 28 ہزار کے لگ بھگ کنکشنز کسانوں کے ہیں وہ بجلی استعمال کر رہے تھے لیکن بل ادا نہیں کرتے تھے اور سالانہ 80 سے 90 ارب روپے وفاق کو نقصان ہو رہا تھاپچھلے آٹھ ،دس سال میں قومی خزانے کے 500 ارب روپ ویسے ہی بہا دیئے گئے یہی پیسہ اگر سڑکوں ،یونیورسٹیوں اور عوام کی خوشحالی کے لئے خرچ کیا جاتا تو کتنا فائدہ ہوتا وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی اور بلوچستان حکومت نے مل کر ان 28 ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر 55 ارب روپے خرچ ہوں گے ،منصوبہ کی لاگت کا 70 فیصد وفاقی اور 30 فیصد صوبائی حکومت برداشت کرے گی شمسی توانائی سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور یہی ماڈل بعد میں ہم ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اپنائیں گے ۔پاکستان میں 10 لاکھ ٹیوب ویل تیل سے چلتے ہیں اور تیل کا درآمدی بل ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ ہے جو قومی خزانہ پر بہت بڑا بوجھ ہے ۔تیل پر چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کے لئے بزنس ماڈل بنایا جائے گا کسانوں کو ہم قرضے لے کر دیں گے اورانہیں شمسی توانائی پر منتقل کر دیا جائے گا۔ہمارے پاس سورج تونائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بجٹ میں یقیناً ٹیکس لگے ہیں مگر امراء اور اشرافیہ کو بھی ٹیکس کے دائرہ میں لایا گیا ہے ریئل اسٹیٹ کے شعبہ پر ٹیکس سے 100 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے ڈائون سائزنگ اور سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات کی خود نگرانی کر رہا ہوں وزیر اعظم نے دوٹوک واضح کردیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہماری ضرورت اور مجبوری تھی وقت آ گیا ہے کہ اشرافیہ اور صاحب حیثیت افراد بھی ملک کیلئے قربانی دیں ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گا۔
وزیر اعظم نے توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں دل کو چھو لینے والی باتیں سامنے رکھی ہیں اس تقریب میں وفاقی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ بھی مدعو تھے ۔وزیر اعظم نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پچھلے دور 23۔2022ء میں میاں نواز شریف کی قیادت میں اور اتحادی جماعتوں کے تمام سربراہوں کے ساتھ مل کر ہم نے ریاست کو بچایا اور سیاست کو داؤ پر لگایا اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے محفوظ رہاآپ نے دیکھا کہ ماضی میں سیاست کو چمکانے کے لئے کس طرح بڑے بڑے بول بول کر وعدے کئے گئے۔ پی ٹی آئی نے 90 روز میں بدعنوانی کے خاتمہ کا اعلان کیا لیکن اس کے برعکس کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ چینی اور گندم کو پہلے برآمد کیا گیا اور بعد میں مہنگے داموں درآمد کی گئی اوراپبے قریبی ساتھیوں کی جیبیں بھری گئیں ملک کے لوٹے گئے 300 ارب ڈالر واپس لانے کی بھی باتیں کی گئیں لیکن ایک دھیلا بھی ملک میں واپس نہیں لایا گیا۔ بانی پی ٹی آئی نے تو یہ تک کہا تھا کہ مرجائوں گا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا لیکن پھر آئی ایم ایف کے پاس گئے اور آئی ایم ایف سے مہنگا پروگرا م لیا اور پھراسی پروگرام کو سیاست کی نذر بھی کر دیا گیا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنی سیاست کی خاطر ملک کو دائو پر لگایا۔ برطانیہ کے ادارے نیشنل کرائم ایجنسی کی مہربانی سے پاکستان کے خزانے میں 190 ملین پاؤنڈ بھجوائے گئے تاکہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہو لیکن ہیرا پھیری سے 190 ملین پاؤنڈ پر بھی ہاتھ صاف کر دئے گئے اور قومی خزانہ میں یہ رقم جمع کرانے کی بجائے اس میں خوردبرد کی گئی ۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے نشاندہی کی کہ جب دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں تو عدم اعتماد کے ووٹ کے خدشے کی وجہ سے یکا یک قیمتیں کم کر دی گئیں حالانکہ بجٹ میں اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں تھی جس سے قومی خزانے کو بے پناہ نقصان پہنچادیا گیا۔جبکہ صدر مسلم لیگ ن میاں نواز شریف نے ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے قوم کی خدمت کی ہے ہم ان کے اسی وژن اور پالیسی پرعمل پیرا ہیں ۔بجٹ میں کچھ نئے شعبوں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا گیا ہے، تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس لگا ہے ریئل اسٹیٹ کے شعبہ پر ٹیکس سے 100 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، بجٹ میں یقیناً ٹیکس لگے ہیں مگر امراء اور اشرافیہ کو بھی ٹیکس کے دائرہ میں لایا گیا ہے
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہماری ضرورت اور مجبوری تھی،مجھے یقین ہے کہ اگر ایمانداری ،خلوص دل ،قربانی اور ایثار سے شبانہ روز محنت کی ،اشرافیہ اور صاحب حیثیت لوگ جنہوں نے پاکستان سے بے پناہ فائدے حاصل کئے ہیں وہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو وہ فائدہ واپس لوٹائیں، وقت آ گیا ہے کہ اشرافیہ ملک کیلئے قربانی دے حکومت صنعت اور زراعت کو چلانے کے لئے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی ،ڈاؤن سائزنگ کا کام شروع ہو چکا ہے ہم بچت کریں گے ڈائون سائزنگ اور سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات کی خود نگرانی کر رہا ہوں ایف بی آر کی 100 فیصد ڈیجیٹلائزیشن ہو رہی ہے وزیراعظم نے بتادیا کہ پاکستان میں درآمدات اور برآمدات پر سالانہ پانچ ارب ڈالرکا بحری جہازوں کا کرایہ خرچ ہو تا ہے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس صرف 12 بحری جہاز ہیں اور سالانہ تنخواہیں پانچ ارب روپے ہیں پاکستان کی نسبت خطے کے دیگر ممالک کے پاس سامان کی نقل و حمل کیلئے کئی گنا زیادہ بحری جہاز ہیں بنگلہ دیش کے پاس بھی کئی سو جہاز ہیں بدقسمتی سے ملک کو کونے کونے میں چاٹا جا رہا ہے ہم نے اس کا فوری علاج کرنا ہے وزیراعظم نے کہا کہ اربوں ،کھربوں روپے کی کرپشن پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ عام ا?دمی کو ریلیف ملے اور ملک خوشحال ہوہم نے کشکول توڑنا ہے ،قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو دن رات محنت کرنا ہو گی ریلیف کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جو رقم کرپشن کی نذر ہور ہی ہے اس کا فوری سدباب کیا جائے وزیراعظم نے تقریب سے خطاب میں بتایا کہ ایک مقتدر ادارے نے ہمیں بتایا ہے کہ صرف کراچی کی بندرگاہ پر ڈیوٹیز کی مد میں سالانہ 1200 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے جبکہ 2700 ارب روپے کے کلیمز ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں میں کئی سالوں سے زیر سماعت ہیں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی جان لڑا دیں گے اور ملکی ترقی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور ملک کو مشکلات سے نجات دلائیں گے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں معدنیات اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں ترقی کی بڑی گنجائش ہے بد قسمتی ہے کہ ہم ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی ،آج بھی فیصلہ کر لیں تو کوئی مشکل راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی کرپشن کے بڑے بڑے سوراخ بند کریں گے قوم کے اربوں کھربوں واپس لائیں گے اور ایمانداری اوردیانتداری کے ساتھ انہیں خرچ کریں گے تو یہ ایک عظیم قوم بن جائے گی انشاء اللہ حالات بدلیں گے بہتری آئے گی اور پاکستان کا وقارسربلند ہوگا.