برطانوی جمہوریت کی اعلیٰ اقدار

4 جولائی 2024ء کے برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی کی ریکارڈ کامیابی نے اس مرتبہ یہ ثابت کر دیا کہ سیاست میں پارٹی کتنی ہی بڑی یا مضبوط کیوں نہ ہو‘ عوامی ووٹ کی غیرمعمولی طاقت سے ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی جسے عرف عام میں ’’ٹوری پارٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ 14 برس تک برطانیہ پر حکمرانی کے بعد اس مرتبہ بری طرح شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق بھارتی نڑاد سابق وزیراعظم رشی سنک جنہیں اپنی ٹوری پارٹی کی شکست کا مبینہ طور پر اندازہ گو انتخابات سے ایک روز قبل ہی ہو گیا تھا مگر وہ اس کوشش میں رہے کہ انکی پارٹی شاید کامیاب ہو جائے مگر افسوس! ان کا یہ خواب اس مرتبہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور یوں کنزرویٹو پارٹی کو تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ٹوری پارٹی کی شکست اور لیبر پارٹی کی کامیابی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ وجوہات تو کئی طرح کی ہیں۔ مگر بڑی اور بنیادی وجہ برطانوی معیشت میں عدم استحکام‘ اقتصادی مشکلات‘ نیشنل ہیلتھ سروسز کی کمزور ترین کارکردگی‘ مہنگائی‘ بڑھتی امیگریشن‘ بے روزگاری‘ بے گھر افراد کی تعداد میں روزافزوں اضافہ اور مسلمان حلقوں میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف دانستہ آواز نہ اٹھانا جیسے معاملات شامل تھے۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کی بناء پر برطانیہ بھر میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے انتخاب میں حصہ لیا۔ ’’ڈیوزبری‘‘ سے مسلمان امیدوار محمد اقبال بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوئے اور بھاری اکثریت سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ اسی طرح لیسٹر سائوتھ میں لیبر پارٹی کے مقابلے میں آزاد امیدوار شوکت آدم اکثریتی ووٹوں سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ بریڈفورڈ ویسٹ سے پاکستانی نڑاد نازشاہ‘ یاسمین قریشی‘ مانچسٹر سے افضل خان اور لندن کے علاقہ ٹوٹنگ سے روزینہ خان کامیاب ہوئی ہیں۔ غزہ مسلمان ووٹروں کا چونکہ سب سے اہم ایشو تھا‘ اس لئے مسلم حلقوں میں لیبر پارٹی کو پانچ سیٹوں پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 
برطانوی دارالعوام چونکہ 650 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہے اس لئے حتمی نتائج کے بعد لیبر پارٹی نے 412‘ کنزرویٹو پارٹی نے 121‘ لب ڈیم نے 72‘ سکائش نیشنل پارٹی نے 9‘ گرین پارٹی 4‘ اور ریفارم پارٹی نے چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 
یہاں آپ کو یہ آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں حکومت سازی کیلئے پارلیمنٹ کی 326 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے جبکہ لیبر پارٹی نے اس بار 412 نشستیں حاصل کرکے سیاسی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ لیبر پارٹی کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم سرکیئر سٹارمر 18 ہزار 884 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ سابق وزیراعظم رشی سنک بھی اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم اپنی انتخابی مہم میں مضبوط برطانوی اکانومی اور ٹوٹی پھوٹی شاہراہوں کی فوری حالت بدلنے کا اعلان بھی چونک کر چکے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے منشور کی اس شق پر عملدرامد کیلئے وہ کتنی جلد احکامات جاری کرتے ہیں۔ 
ان انتخابات میں اس مرتبہ متعدد تجربہ کار اراکین پارلیمنٹ اور وزراء ہائوس آف کامن سے باہر ہو گئے۔ شکست کھانے والوں میں سب سے نمایاں نام 49 دنوں تک برطانیہ کی وزیراعظم رہنے والی ٹوری پارٹی کی ممتاز لیڈر Lis Turss ہیں جو الیکشن ہار گئی ہیں۔ اسی طرح کنزرویٹو پارٹی کے سابق سیکرٹری دفاع ’’گرانٹ ‘‘ اور ’’پینی مورڈنٹ‘‘ کامیاب نہیں ہو سکے۔ متعدد کوششوں کے بعد ریفارم یوکے پارٹی کے سربراہ نائجل فراج بھی برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بننے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ورکر پارٹی کے سربراہ جارج گیلوے جو گزشتہ ضمنی انتخاب جیتے تھے‘ اس مرتبہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ 
یہ بھی ریکارڈ ہے کہ 1923ء کے بعد ان انتخابات میں ’’لب ڈیم‘‘ پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ ٹوری پارٹی کو سب سے بڑا دھچکا ویلز میں لگا جہاں مبینہ طور پر ٹوری پارٹی کوئی بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسی طرح لیبر پارٹی کے سابق سربراہ ’’جیری کوربن‘‘ جنہوں نے اس مرتبہ لیبر پارٹی سے رشتہ توڑ کر بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑا‘ 24 ہزار 120 ووٹ لے کر 11ویں مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔ 
اب آئیے برطانوی جمہوریت کے اعلیٰ و ارفع سیاسی اصولوں کی جانب۔ جن کی بناء پر برطانیہ کو دنیا میں  ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کا  اعزاز حاصل ہے۔ آپکی حیرانگی اپنی جگہ مگر مہذب قوموں کے یہی اوصاف ہوتے ہیں۔ پولنگ کے دوران نہ گولی  چلی‘ ووٹروں کو ہراساں کیا گیا نہ ہاتھا پائی ہوئی اور نہ ہی 47, 45 فارموں کی بازگشت سنائی دی۔ ٹوری پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم رشی سنک تک جب یہ خبر پہنچی کہ ٹوری پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے تو انوں نے انتہائی فراخ دلی سے نئے وزیراعظم سرکیئر سٹارمر کو جیت کی مبارکباد دیتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ شکست کی خبر ستے ہی سب سے پہلے وزیر خزانہ ’’جیرمی ہنٹ‘‘ نے 11ڈائوننگ سٹریٹ جو انکی سرکاری رہائش گاہ تھی‘ اپنے بچوں اور پالتو کتے کے ہمراہ بغیر تاخیر خالی کر دی اور گھر کے باہر کھڑی وین میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے اور میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست پاکستان میں آخر وہ کونسے ایسے بنیادی عوامل ہیں جو برطانوی جمہوریت سے حاصل کئے رول ماڈل کے باوجود گزشتہ 76 برس سے ملک میں امن اور سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دے پا رہے؟؟ پس یہی محب وطن پاکستانیوں کا وہ سوال ہے جس کے جواب کیلئے ان سطور میں اکثر و بیشتر میں رونا روتا ہوں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...