ہر شعبۂ ہائے زندگی میں مہنگائی کا شور اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ معاشی زبوں حالی و بدحالی کی جو صورتِ حال ہے اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ صورت حال دن بدن دگرگوں ہو رہی ہے۔ حالات سب کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
پہلی بار ہوا ہے کہ اب غریب ہی نہیں، امیر بھی موجودہ صورت حال سے پریشان ہے۔ آئی ایم ایف نے شرائط کی ایسی تلوار لٹکا دی ہے کہ مانے بغیر چارہ نہیں ۔ جن شرائط پر اکتفا کیا جا رہا ہے اُن میں گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ بھی شامل ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرح ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے۔ لوگ گھروں کا قیمتی سامان بیچ کر بجلی کے بل اتار رہے ہیں۔ اگرچہ قوم نے کئی بُرے ادوار دیکھے، تاہم ایسے دنوں کا کبھی سامنا نہیں کیا۔
پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ ایسے میں کسی گھر میں صرف ایک کمانے والا ہو تو کیا اُس کی محدود آمدن سے گھر چلانا ممکن ہے؟ پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح کا تناسب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ملک کی بیشتر آبادی کے لیے اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ایسے میں پاکستان میں لوگوں کی اکثریت آمدن بڑھانے کے مختلف طریقے تلاش کر رہی ہے لیکن کیا ہر کسی کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے؟ اس کوشش میں کیا اُن کو جینے کے لیے اَن دیکھی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے؟ یہ اور اس جیسے اور بہت سے سوالات کے ساتھ ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی کے رپورٹر نے پاکستانی شہریوں سے گفتگو کی اور جوابات پر مبنی اس گفتگو کو اپنی رپورٹ کا حصّہ بنایا۔
ایک کمپنی میں مارکیٹنگ مینجر کی پوسٹ پر تعینات خاتون مینجر نے بی بی سی کے نمائندے کوبتایا کہ وہ گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ اُن کے گھر میں کوئی تیسرا فرد نہیں۔ اس کے باوجود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں دوسری نوکری کی تلاش ہے تاکہ گھر کا معاشی نظام فعال طریقے سے چل سکے۔ غرض یہ کہ آج کے زمانے میں کوئی ایسا نہیں، جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک میں ضروریات زندگی کی چیزں کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ فطری امر بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس رفتار سے چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہوا۔ اور یہ بات بھی ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کے خواہش مند یا طلب گار زیادہ ہو جائیں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔
دنیا میں لوہے، کوئلے اور پیٹرول کے ذخیرے جس تیزی سے استعمال میں آ رہے ہیں اتنی تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہو سکی۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دنیا کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں، تاہم ہندوستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویش ناک ہے۔
ہندوستان بنیادی طور پر غریب اور پسماندہ ملک ہے۔ جو آزادی ملنے کے بعد سے ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ تاہم ہماری ترقی کے تمام دعوے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب ضروریات زندگی کی اشیاء کی کمی کی وجہ سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ جس ملک کی بیشتر آبادی کو دو وقت پیٹ بھرنے کے لیے اناج نہ مل سکے، وہاں سماجی ترقی اور تہذیب و تمدن کی باتیں کرنا ایک کربناک مذاق ہے۔
بہرحال ان مسائل کو دور کرنے کے لیے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ ترقی و خوشحالی کے لیے زرعی پیداوار و صنعتی ترقی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبے اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ اس سے بے روزگاری ختم ہو سکتی ہے اور لوگوں کو روزگار کے نئے اور بہتر مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ ابتداء میں بہت سے منصوبوں کو دیکھ کر یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ ملک جلد ہی خود کفالت کے راستے کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ غریبی اور بدحالی کا خاتمہ ہو گا۔ لیکن ملک میں آبادی کی غیر معمولی بڑھتی ہوئی رفتار خوشحالی کے راستے میں مہیب رکاوٹ بن گئی ہے۔ جو حالات ہیں اُن میں مہنگائی کا بڑھنا قدرتی امر ہے لیکن موجودہ مہنگائی کی صورت حال کو منافع خوری اور بلیک مارکیٹنگ نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ درمیانے اور متوسط طبقے کے لوگ بھی پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے جیسی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ غریبی میں کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جس سے جمہوریت کے سب دعوے اب چھوٹے اور جھوٹے نظر آتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مفلسی اور بدحالی کو روکنے کے لیے حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔ اس صورت حال سے عوامی اضطراب بڑھ رہا ہے اور لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جمہوری حکومت کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ عوام کے جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں انہیں حل کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع اور وسائل بروئے کار لائے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اب تک اس میں ناکام ہے۔ مہنگائی کو روکنے کے لیے حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لینا چاہیے۔ مؤثر اور مناسب اقدامات نہیں کئے گئے تو یہ مسئلہ بہت گھمبیر ہو سکتا ہے۔
جو صورت حال ہے اُس کی عکاسی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ کئی شہروں میں تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ گیس اور بجلی کے بلوں کو لے کر ہر شخص پریشان ہے۔ ان کی ادائیگی ہر صارف کے لیے مسئلہ بن گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایماء پر ٹیرف کا بڑھنا المیے کی بات ہے۔ بجلی کے ہوشربا بلوں نے صنعتی پیداوار پر بھی بُرے اثرات مرتب کئے ہیں جو نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ بہت سے پیداواری صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں یا بند ہونے کے بالکل قریب ہیں۔لیکن حکومت پھر بھی مطمئن ہے کہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال پر قابو پا لے گی۔تاہم اس مہنگائی کا مسئلہ جلد یا بدیر حل ہوتانظر نہیں آتا۔ یہ صورت حال یونہی برقرار رہی تو ناصرف مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف نیچے آئے گا بلکہ آئندہ الیکشن میں اسے اپنے امیدوار کھڑے کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے۔ اس لیے حکومتی معاشی ٹیم کو بہت زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔