اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے والا  کال ٹیپنگ کا مجوزہ قانون

ملک کی ایک خفیہ ایجنسی کو کال ٹیپنگ کا اختیار دینے سے متعلق حکومت کی قانون سازی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمرایوب خان نے کہا ہے کہ حساس ادارے کو کال ٹیپنگ کا اختیار دینے والے کل کو خود کال ٹیپنگ کی زد میں آئیں گے۔ اس قانون کے ذریعے آصف علی زرداری‘ نوازشریف‘ شہبازشریف اور مریم نواز کو ہی جیل جانا پڑیگا۔ انہوں نے کال ٹیپنگ سے متعلق وفاقی کابینہ کا جاری کردہ نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے فون کال ٹیپنگ کے قانون کے حوالے سے بتایا کہ یہ معاملہ ابھی قانونی مراحل سے گزر رہا ہے۔ انکے بقول نیشنل سکیورٹی کے معاملات پر ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ہم دہشت گردی کیخلاف جو جنگ لڑ رہے ہیں‘ اسکے تناظر میں کال ٹیپنگ کا اختیار دینا ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین ماضی میں خود فون کال ٹیپنگ کے فوائد گنوایا کرتے تھے۔ 
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ماضی میں ایسی مخبریوں کی زد میں آکر نقصان اٹھانے والے ہمارے مقتدر سیاست دان بھی خفیہ ریاستی ادارے کو کال ٹیپنگ کا اختیار دینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ اول تو یہ اختیار آئین کی دفعہ 19 کے سراسر منافی ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دیا گیا ہے اور اس آئینی شق کے تحت جن معاملات پر شتربے مہار اظہار رائے سے روکا گیا ہے وہ سراسر ملکی اور قومی سلامتی سے متعلق ہیں جبکہ اس نوعیت کے اظہار رائے کی گرفت کیلئے پہلے ہی قوانین موجود ہیں۔ دوسرے یہ کہ سپریم کورٹ 1994ء میں ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت اور فون ٹیپ کرنے کے اقدامات کیخلاف ائرمارشل اصغر خان کی دائر کردہ آئینی درخواست پر پہلے ہی ایسے اقدامات کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے چکی ہے جبکہ متعلقہ ریاستی ادارے کی جانب سے بھی عدالت عظمیٰ کو لوگوں کے فون ٹیپ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی چنانچہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کی دفعہ 19 کی روشنی میں کال ٹیپنگ کیلئے کسی قانون سازی کا ویسے ہی جواز نہیں بنتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں سیاسی شخصیات‘ ججز، بیورو کریٹس اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو کال ٹیپنگ کے ذریعے مخصوص مقاصد کے تحت بلیک میل کیا جاتا رہا ہے اس لئے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا کسی خفیہ ایجنسی کو اختیار دینا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے ہی مترادف ہے جس سے حکومت کو بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن