وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو تین ماہ کے لیے رعایت دینے کا اعلان کیا یے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو قربان کیا، مشکل مرحلہ گزر گیا اور پاکستان بچ گیا، ہم پر یہ تنقید کی گئی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ بنا رہے ہیں اس میں کیا راز کی بات ہے؟ سب کو معلوم تھا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کررہے ہیں۔ اس بجٹ میں یقیناً ٹیکسز لگے ہیں، اشرافیہ پر بعض ٹیکسز پہلی بار لگا ہے، لینڈ کا کاروبار کرنے اور سرمایہ کاروں پر بھی پہلی بار ٹیکس لگا ہے جو بیٹھے بٹھائے منافع حاصل کررہے ہیں جس سے 100 ارب آمدن کی توقع ہے۔
ٹیکس لگا دینا ٹیکس نیٹ اور ٹیکسوں میں اضافہ کر دینا کوئی مشکل کام ہے نہ مسائل کا مستقل اور پائیدار حل ہے۔مشکل کام تو ٹیکسوں کی وصولی ہے۔وزیراعظم صاحب 100 ارب روپے کی مزید آمدن کی بات کر رہے ہیں جو نئے لگائے گئے ٹیکسوں سے حاصل ہوگی۔اس میں سے کتنا حکومتی خزانے میں جائے گا اور کتنا ٹیکس وصول کرنے والے اہلکار ’’سکہ رائج الوقت‘‘کے مطابق اپنی جیبوں میں ڈال لیں گے۔ہمارے ہاں نظام اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ قرض لینے کے لیے بینک جانے والے کو عموماً مینیجرز دو فارم دیتے ہیں ایک قرض لینے کے لیے دوسرا قرض معاف کروانے کے لیے،قرض لینے والے کو پہلے ہی قرض معافی کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔کرپشن کے راستے بند کر دیئے جائیں اور اشرافیہ کی بے جا مراعات ختم کر کے صرف انہی کو ٹیکس نیٹ میں لے آیا جائے تو نئے ٹیکسوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کرپشن کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے پھر کہا ہے کہ یہ دیمک ملک کو چاٹ رہی ہے اس کا ہمیں فوری طور پر علاج کرنا ہے۔صرف کراچی بندرگاہ پر امپورٹ ایکسپورٹ کی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں سالانہ بارہ سو ارب روپے چوری کیے جارہے ہیں۔ جس محکمے کو دیکھیں، جس اینٹ کو اکھاڑیں اس کے نیچے سے اسی طرح کی کرپشن برآمد ہوگی۔کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔کشکول ٹوٹ سکتا ہے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کا پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کا خواب بھی پورا ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کرنا ہماری مجبوری تھی اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم بچت کریں گے، ڈاوئون سائزنگ شروع ہوچکی، نجکاری جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے جس طرح کی نجکاری کی جا رہی ہے اس کو بھی سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔وزیر خزانہ کی طرف سے یہ بیان آ چکا ہے کہ کوئی ادارہ خسارے میں ہے یا منافع بخش، سب کی یکساں طور پر نجکاری کر دی جائے گی۔کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ خسارے میں جانے والے ادارے بھی منافع بخش ہو جائیں۔ ایسا ممکن نہیں تو ان کی نجکاری کی جا سکتی ہے لیکن منافع بخش ا داروں کی نجکاری کرنے کا سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے۔ادارے کیسے ڈوب جاتے ہیں، وزیراعظم صاحب کی طرف سے اس کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے اپنے بحری جہاز نہیں ہیں، صرف فریٹ کی مد میں 5 ارب ڈالر ادا کررہے ہیں۔ ہمارا امپورٹ اور ایکسپورٹ کا فریٹ یعنی بحری جہازوں کا کرایہ سالانہ پانچ ارب ڈالر ادا کیا جاتا ہے اور ہمارے "مایہ ناز" قومی ادارے پی این ایس سی کے پاس صرف بارہ جہاز ہیں اور سالانہ تنخواہیں پانچ ارب روپے ہیں یعنی فی جہاز 47 یا 48 کروڑ روپے کا پڑرہا ہے، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کے پاس کئی سو جہاز ہیں وہ امپورٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں اور کرایہ بھی بچاتے ہیں۔ یہاں ہم پی این ایس سی کو پانچ ارب روپے سالانہ تنخواہیں دے رہے رہیں اور ہمارے پاس جہاز ہی نہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی سٹیل ملز اور ایئر لائنز انتہائی منافع میں جا رہی ہیں جبکہ پاکستان سٹیل مل اور پی آئی اے ریاست کے لیے سفید ہاتھی محض بدانتظامی کی وجہ سے بن چکے ہیں۔
پاکستان کئی مسائل اور مشکلات کا شکار ہے لیکن آج بجلی کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے کہا گیا کہ اوور بلنگ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔اوور بلنگ کون کر رہا ہے اورکون کروا رہا ہے۔اوور بلنگ ایکسیئن اور ایس ڈی او کی ضرورت نہیں ہو سکتی ان کی طرف سے کسی کے کہنے پر ہی اوور بلنگ کی جاتی ہے۔وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے زیادہ اس کا کس کو علم ہوگا۔ اب تک یہ لوگ قانون کے شکنجے میں آ جانے چاہئیں تھے۔بجلی کی قیمتوں اور خصوصی طور پر اوور بلنگ نے صارفین کا عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر حکومت کو ترس آگیا ہے۔ توبجلی کے نرخوں پر نظرثانی کی گئی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ پروٹیکٹڈ صارف کہلانے والوں کے نرخ بڑھے تو ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی، ان کا احتجاج جائز ہے، یہ ڈھائی کروڑ صارفین ہیں ہم دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کا اعلان کررہے ہیں۔ میرے اعلان سے 94 فیصد صارفین مستفید ہوں گے، دو سو یونٹس والوں کو ہم تین ماہ جولائی، اگست اور ستمبر تک رعایت دے رہے ہیں۔ اکتوبر میں موسم بہتر ہوجاتا ہے، تین ماہ کے لیے عام صارفین کو ریلیف دینے سے پچاس ارب روپے کی رقم خرچ ہوگی۔
وقتی طور پر صارفین کو دیا جانے والا ریلیف اس مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہے۔عوام تب ہی مطمئن ہوں گے جب ان کو اوور بلنگ اور مہنگی بجلی سے نجات ملے گی یہ اسی صورت ممکن ہے کہ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کی طرف آئیں جو ہائیڈل، ونڈ اور سولر کی صورت میں پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ سردست آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔