انیس الرحمن
کیا عالم عرب میں اٹھنے والی عوامی بغاوت نئی ہے ؟ یا کسی پرانی دبی آگ کی چنگاری ہے؟ ستر کی دہائی کے نصف ثانی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے ایک ایسے عرب عوامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا خمیازہ آگے چل کر تمام عرب حکومتوں کو بھگتنا تھا ۔1978ءمیں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے مصر کے سابق صدر انوار سادات نے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بیگن اور سابق امریکی صدر کارٹر کی نظر میں اپنے آپ کو ”پرنس آف پیس“ کہلوا لیاتھا اور گمان یہ پیدا ہوچلا تھا کہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے عرب اپنی روایت سے ہٹ گئے ہیںکیونکہ 1948ءسے لیکر 1978ءتک دو عرب صدور، تین وزراءاعظم اور ایک عرب بادشاہ عرب ردعمل کا شکار ہوچکے تھے۔ لیکن تبدیلی کا یہ تاثر اس وقت دم توڑ گیا جب 6اکتوبر1981ءکو انوار سادات اپنی ہی فوج کے حصار میں اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کے جسم میں اترنے والی پندرہ گولیوں نے اس بات کا واشگاف اعلان کردیا تھا کہ فلسطین کے معاملے میں سودے بازی کس قدر مہنگی پڑ سکتی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ٹھیک ایک سال بعد 26نومبر 1979ءکو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوجاتی ہیں ۔ عالم عرب کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کا رخ مقبوضہ القدس کے ساتھ ساتھ کابل کی طرف بھی موڑتا ہے۔عرب حکومتیں ردعمل کے طوفان کا رخ اپنے آپ سے ہٹا کر افغانستان کی طرف پھیرتی ہیں اور یوں ایک دہائی تک انہیںسکھ کا سانس لینے کا موقعہ مل جاتا ہے۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یہ مجاہدین جب گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے پاس عزم اور فن حرب دونوں ہوتے ہیں ۔ امریکہ سوویت یونین کی تحلیل سے فائدہ اٹھا کر 1992ءمیںیہ سوچ کرفلسطینی قیادت کے ساتھ اسرائیل کا اوسلو میں ”امن معاہدہ“ کراتا ہے کہ سوویت روس افغان جنگ کے زخم چاٹنے میں مصروف ہے اور وہ مشرق وسطی میں کسی بھی بڑی تبدیلی کے خلاف موثر کردار ادا نہیں کرسکے گا ۔ امریکہ کی یہی خوداعتمادی اسے صدام کو کویت پر حملے کے لئے ورغلانے میں کام آتی ہے۔افغان جنگ کا مزا چکھ کر واپس آنے والے عرب مجاہدین کی قیادت عرب حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے انہیں کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کا ٹاسک دیا جائے کیونکہ جو افغانستان میں سوویت یونین جیسی قوت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے تھے ان کے لئے کویت سے عراقی فوج کو واپس جانے پر مجبور کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن عرب حکمرانوں کے امریکی تنخواہ دار مشیروں نے انہیں یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ اگر یہ مجاہدین عراقی فوج سے کویت خالی کرانے میں کامیاب ہوگئے تو کل کو یہ عرب حکومتوں کو بھی چلتا کریں گے اس مقام پر عرب حکمرانوں کا خوف اور امریکہ کی مہم جوئی ایک نکتہ پر آچکی تھی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے خلیج میں فوج اتارنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور کویت کی آزادی کے نام پر تمام مشرقی وسطی کی آزادی سلب کرنے کا عمل شروع ہوا ۔پہلے بنیاد پرستی، پھر انتہا پسندی اور اس کے بعد دہشت گردی کے نام مروج ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کے لئے دشمن کے طور پر عالمی صہیونی میڈیا نے ایک نیا بت تراش لیالیکن امریکہ کی مرضی کے خلاف اس جنگ نے اس دبی ہوئی چنگاری کو پھر سے ہوا دے دی جو 1978ءمیں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد بھڑکی تو تھی لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی آمد نے اس چنگاری کو بھڑکنے سے پہلے دبا دیا تھا۔
آج چوبیس برس بعد اسی دبی ہوئی چنگاری نے پہلے تیونس کے امریکہ اسرائیل نواز عسکری آمر جنرل زین العابدین بن علی کا اقتدار بھسم کیااس کے بعد یہ آگ کی شکل اختیار کرتے ہوئے حسنی مبارک کے اقتدار کو نگلتی ہوئی اب لیبیا ، مراکش، الجزائر، شام اور یمن تک جا پہنچی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں پر مشتمل دور کے دوران عالم عرب کی حکمران لیبرل اقلیت اگر اپنے عوام کے مزاج کارخ نہ موڑ سکی توکیا یہ ممکن ہے کہ پاکستانی تاریخ کے بدترین آمر مشرف کے دور میں جنم لینے والی نابالغ لیبرل اقلیت جو اب بھی حکومت اور میڈیا میں موجود ہے پاکستانی قوم کا فکری مزاج بدل دے گی؟ اگر ان لیبرل مچھندروں کو اس بات کا شعور نہیں تو عالم عرب کے عوامی انتفاضہ سے سبق سیکھیں ۔یمن میں لگی ہوئی اس آگ کو غور سے دیکھنے کی کوشش کریں جو” انسانوں کو دھکیل کر میدان حشر کی طرف لانے والی ہے۔۔۔“
کیا عالم عرب میں اٹھنے والی عوامی بغاوت نئی ہے ؟ یا کسی پرانی دبی آگ کی چنگاری ہے؟ ستر کی دہائی کے نصف ثانی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے ایک ایسے عرب عوامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا خمیازہ آگے چل کر تمام عرب حکومتوں کو بھگتنا تھا ۔1978ءمیں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے مصر کے سابق صدر انوار سادات نے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بیگن اور سابق امریکی صدر کارٹر کی نظر میں اپنے آپ کو ”پرنس آف پیس“ کہلوا لیاتھا اور گمان یہ پیدا ہوچلا تھا کہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے عرب اپنی روایت سے ہٹ گئے ہیںکیونکہ 1948ءسے لیکر 1978ءتک دو عرب صدور، تین وزراءاعظم اور ایک عرب بادشاہ عرب ردعمل کا شکار ہوچکے تھے۔ لیکن تبدیلی کا یہ تاثر اس وقت دم توڑ گیا جب 6اکتوبر1981ءکو انوار سادات اپنی ہی فوج کے حصار میں اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کے جسم میں اترنے والی پندرہ گولیوں نے اس بات کا واشگاف اعلان کردیا تھا کہ فلسطین کے معاملے میں سودے بازی کس قدر مہنگی پڑ سکتی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ٹھیک ایک سال بعد 26نومبر 1979ءکو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوجاتی ہیں ۔ عالم عرب کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کا رخ مقبوضہ القدس کے ساتھ ساتھ کابل کی طرف بھی موڑتا ہے۔عرب حکومتیں ردعمل کے طوفان کا رخ اپنے آپ سے ہٹا کر افغانستان کی طرف پھیرتی ہیں اور یوں ایک دہائی تک انہیںسکھ کا سانس لینے کا موقعہ مل جاتا ہے۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یہ مجاہدین جب گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے پاس عزم اور فن حرب دونوں ہوتے ہیں ۔ امریکہ سوویت یونین کی تحلیل سے فائدہ اٹھا کر 1992ءمیںیہ سوچ کرفلسطینی قیادت کے ساتھ اسرائیل کا اوسلو میں ”امن معاہدہ“ کراتا ہے کہ سوویت روس افغان جنگ کے زخم چاٹنے میں مصروف ہے اور وہ مشرق وسطی میں کسی بھی بڑی تبدیلی کے خلاف موثر کردار ادا نہیں کرسکے گا ۔ امریکہ کی یہی خوداعتمادی اسے صدام کو کویت پر حملے کے لئے ورغلانے میں کام آتی ہے۔افغان جنگ کا مزا چکھ کر واپس آنے والے عرب مجاہدین کی قیادت عرب حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے انہیں کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کا ٹاسک دیا جائے کیونکہ جو افغانستان میں سوویت یونین جیسی قوت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے تھے ان کے لئے کویت سے عراقی فوج کو واپس جانے پر مجبور کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن عرب حکمرانوں کے امریکی تنخواہ دار مشیروں نے انہیں یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ اگر یہ مجاہدین عراقی فوج سے کویت خالی کرانے میں کامیاب ہوگئے تو کل کو یہ عرب حکومتوں کو بھی چلتا کریں گے اس مقام پر عرب حکمرانوں کا خوف اور امریکہ کی مہم جوئی ایک نکتہ پر آچکی تھی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے خلیج میں فوج اتارنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور کویت کی آزادی کے نام پر تمام مشرقی وسطی کی آزادی سلب کرنے کا عمل شروع ہوا ۔پہلے بنیاد پرستی، پھر انتہا پسندی اور اس کے بعد دہشت گردی کے نام مروج ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کے لئے دشمن کے طور پر عالمی صہیونی میڈیا نے ایک نیا بت تراش لیالیکن امریکہ کی مرضی کے خلاف اس جنگ نے اس دبی ہوئی چنگاری کو پھر سے ہوا دے دی جو 1978ءمیں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد بھڑکی تو تھی لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی آمد نے اس چنگاری کو بھڑکنے سے پہلے دبا دیا تھا۔
آج چوبیس برس بعد اسی دبی ہوئی چنگاری نے پہلے تیونس کے امریکہ اسرائیل نواز عسکری آمر جنرل زین العابدین بن علی کا اقتدار بھسم کیااس کے بعد یہ آگ کی شکل اختیار کرتے ہوئے حسنی مبارک کے اقتدار کو نگلتی ہوئی اب لیبیا ، مراکش، الجزائر، شام اور یمن تک جا پہنچی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں پر مشتمل دور کے دوران عالم عرب کی حکمران لیبرل اقلیت اگر اپنے عوام کے مزاج کارخ نہ موڑ سکی توکیا یہ ممکن ہے کہ پاکستانی تاریخ کے بدترین آمر مشرف کے دور میں جنم لینے والی نابالغ لیبرل اقلیت جو اب بھی حکومت اور میڈیا میں موجود ہے پاکستانی قوم کا فکری مزاج بدل دے گی؟ اگر ان لیبرل مچھندروں کو اس بات کا شعور نہیں تو عالم عرب کے عوامی انتفاضہ سے سبق سیکھیں ۔یمن میں لگی ہوئی اس آگ کو غور سے دیکھنے کی کوشش کریں جو” انسانوں کو دھکیل کر میدان حشر کی طرف لانے والی ہے۔۔۔“