ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک کے امیر ترین صوبے میں ایک اقلیتی وزیر نے بجٹ پیش کیا۔ پنجاب اسمبلی میں موجود بشپ الیگزینڈر جان ملک کے لئے کئی ماہ بعد یقینی طور پر یہ اچھی خبر تھی۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان جن میں سینئر سیاستدان سردار کھوسہ بھی موجود تھے وہ تقریر کرنے سے ہچکچا رہے تھے اس وقت کامران مائیکل نے اس چیلنج کو ایک موقع میں تبدیل کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کی۔ اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے کامران مائیکل کو میاں نوازشریف کی خصوصی پشت پناہی حاصل تھی۔ بجٹ سیشن کے آغاز میں چودھری ظہیر الدین نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ مونس الٰہی کو پروڈکشن آرڈر کے تحت اس بجٹ اجلا س میں بلائیں۔ اس پر سپیکر نے انہیں بتا دیا کہ پنجاب اسمبلی کے قواعد کے مطابق ایسا نہیں ہو سکتا۔ رانا ثناءاللہ خان نے اس موقع پر کہاکہ یہ قانون صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جیل میں ہیں جبکہ مونس الٰہی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ وہ ریسٹ ہاﺅس میں بڑے آرام سے رہ رہے ہیں اس موقع پر وزیراعلیٰ کے لبوں پر بھی ہلکی مسکراہٹ آئی۔ یہ بات بھی عجیب تھی کہ ق لیگ کے ارکان اسمبلی نے مونس الٰہی کے لئے احتجاجاً سیاہ پٹیاں بازوﺅں پر باندھ رکھی تھیں مگر چودھری ظہیر الدین جنہوں نے سفید شلوار قیمض زیب تن کر رکھی تھی۔ انہوں نے یہ پٹی نہیں لگائی تھی۔ کامران مائیکل بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ ڈائس پر آئے تو ارکان نے ڈیسک بجائے۔ ان کی تقریر کو ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ایک ہار لے کر وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب بڑھے ان کا مقصد وزیراعلیٰ کی جانب سے 8ماہ کا بائیکاٹ ختم کرکے پنجاب اسمبلی میں آنے پر انہیں مبارکباد پیش کرنا تھا۔ اس موقع پر رانا ثناءاللہ، زعیم قادری اور وارث کلو فوراً وزیراعلیٰ کی سیٹ کی جانب لپکے اور راجہ ریاض کو یہ ہار ڈالنے سے روک دیا۔ اس دوران یہ ہار وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اس موقع پر دونوں جانب سے کچھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بعدازاں ارکان پارلیمنٹ اپنی نشستوں پر چلے گئے اور کامران مائیکل نے تقریر دوبارہ شروع کر دی۔ زعیم قادری وزیراعلیٰ کے قریب ہی موجود رہے تاکہ ایسی مزید کوئی کارروائی نہ ہو سکے۔ کامران مائیکل بڑے جوش و جذبہ سے اور بلند آواز سے حفیظ شیخ کی طرح تقریر کر رہے تھے۔ اعداد و شمار پر چاہے وہ 20روپے ہوں یا کئی ملین وہ ان کو زور دے کر ادا کرتے رہے۔ ایسے الفاظ جو بظاہر وزیراعلیٰ کے ڈیسک پر لکھے گئے اور جن پر ارکان نے خوب تالیاں بجائیں وہ انہیں بڑے جوش و جذبہ سے ادا کر رہے تھے۔ ان میں خصوصی طور پر ییلوکیب سکیم، آشیانہ ہاﺅسنگ پراجیکٹ، نوجوانوں کے لئے خود روزگار کے اقدامات اور دانش سکولز کے لئے اقدامات شامل تھے۔ 30میں سے 14صفحات پڑھنے کے بعد انہوں نے پانی کے چند گھونٹ پئے۔ اس دوران اکثر مواقع پر وزیراعلیٰ ارکان کو یہ اشارہ کرتے رہے کہ وہ اگلے پوائنٹ پر زوردار تالیاں بجانے کے لئے تیار رہیں۔ یہ موقع اس وقت آیا جب جنوبی پنجاب کی ترقیاتی سکیموں کا ذکر کیا جانا تھا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے وارث کلو کا کردار قابل ذکر ہے جو کامران مائیکل کے ڈائس کے بالکل قریب تھے۔ تقریر کے بعد اسمبلی کے باہر پیپلزپارٹی کی ایم پی اے عظمیٰ بخاری نے گفتگو کرتے ہوئے یہ نقطہ اٹھایا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن نے بجٹ پیش کیا اور پہلی بار تقریر سے قبل بسم اللہ نہیں پڑھی گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کامران مائیکل نے عربی میں بسم اللہ پڑھی اور اردو میں اس کا ترجمہ بھی کیا۔ مجموعی طور پر اپوزیشن اس حوالے سے قابل تحسین ہے کہ ہار کے واقعہ کے سوا انہوں نے مائیکل کی تقریر وزیراعظم کے وعدے کے مطابق پورے صبر و تحمل سے سنی۔ بجٹ تقریر کے حوالے سے یہ تاثر تھا کہ معاشرے کے امیر طبقے پر مزید ٹیکس لگیں گے اور زیادہ تر ایسا ہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ امیر ترین طبقہ جاگیرداروں، بڑے زمینداروں پر مشتمل ہے جوکہ معیشت کی جی ڈی پی کا زیادہ تر حصہ کنٹرول کرتے ہیں، اگر اس وقت نہیں تو پھر کس وقت زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگنا چاہئے اور یہ جتنی جلدی لگے اتنا ہی اچھا ہے۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ ہزاروں ایکڑ اراضی کا مالک ہے، صرف سوئمنگ پولز اور 100ایکڑ اراضی کے مالکوں پر ٹیکس لگانا ہی کافی نہیں ہے، اگر ملک کو مالی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے تو تمام صوبوں کو زرعی ٹیکس کا نفاذ شروع کر دنیا چاہئے۔ تمام اسمبلیوں کے ارکان جن میں اکثریت اشرافیہ طبقے کی ہے انہیں ایک مثال قائم کرنا ہو گی۔
ملک کو مالی طور پر قدموں پر کھڑا کرنا ہے تو زرعی آمدن پر ٹیکس لگانا ہو گا
Jun 11, 2011
ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک کے امیر ترین صوبے میں ایک اقلیتی وزیر نے بجٹ پیش کیا۔ پنجاب اسمبلی میں موجود بشپ الیگزینڈر جان ملک کے لئے کئی ماہ بعد یقینی طور پر یہ اچھی خبر تھی۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان جن میں سینئر سیاستدان سردار کھوسہ بھی موجود تھے وہ تقریر کرنے سے ہچکچا رہے تھے اس وقت کامران مائیکل نے اس چیلنج کو ایک موقع میں تبدیل کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کی۔ اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے کامران مائیکل کو میاں نوازشریف کی خصوصی پشت پناہی حاصل تھی۔ بجٹ سیشن کے آغاز میں چودھری ظہیر الدین نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ مونس الٰہی کو پروڈکشن آرڈر کے تحت اس بجٹ اجلا س میں بلائیں۔ اس پر سپیکر نے انہیں بتا دیا کہ پنجاب اسمبلی کے قواعد کے مطابق ایسا نہیں ہو سکتا۔ رانا ثناءاللہ خان نے اس موقع پر کہاکہ یہ قانون صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جیل میں ہیں جبکہ مونس الٰہی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ وہ ریسٹ ہاﺅس میں بڑے آرام سے رہ رہے ہیں اس موقع پر وزیراعلیٰ کے لبوں پر بھی ہلکی مسکراہٹ آئی۔ یہ بات بھی عجیب تھی کہ ق لیگ کے ارکان اسمبلی نے مونس الٰہی کے لئے احتجاجاً سیاہ پٹیاں بازوﺅں پر باندھ رکھی تھیں مگر چودھری ظہیر الدین جنہوں نے سفید شلوار قیمض زیب تن کر رکھی تھی۔ انہوں نے یہ پٹی نہیں لگائی تھی۔ کامران مائیکل بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ ڈائس پر آئے تو ارکان نے ڈیسک بجائے۔ ان کی تقریر کو ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ایک ہار لے کر وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب بڑھے ان کا مقصد وزیراعلیٰ کی جانب سے 8ماہ کا بائیکاٹ ختم کرکے پنجاب اسمبلی میں آنے پر انہیں مبارکباد پیش کرنا تھا۔ اس موقع پر رانا ثناءاللہ، زعیم قادری اور وارث کلو فوراً وزیراعلیٰ کی سیٹ کی جانب لپکے اور راجہ ریاض کو یہ ہار ڈالنے سے روک دیا۔ اس دوران یہ ہار وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اس موقع پر دونوں جانب سے کچھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بعدازاں ارکان پارلیمنٹ اپنی نشستوں پر چلے گئے اور کامران مائیکل نے تقریر دوبارہ شروع کر دی۔ زعیم قادری وزیراعلیٰ کے قریب ہی موجود رہے تاکہ ایسی مزید کوئی کارروائی نہ ہو سکے۔ کامران مائیکل بڑے جوش و جذبہ سے اور بلند آواز سے حفیظ شیخ کی طرح تقریر کر رہے تھے۔ اعداد و شمار پر چاہے وہ 20روپے ہوں یا کئی ملین وہ ان کو زور دے کر ادا کرتے رہے۔ ایسے الفاظ جو بظاہر وزیراعلیٰ کے ڈیسک پر لکھے گئے اور جن پر ارکان نے خوب تالیاں بجائیں وہ انہیں بڑے جوش و جذبہ سے ادا کر رہے تھے۔ ان میں خصوصی طور پر ییلوکیب سکیم، آشیانہ ہاﺅسنگ پراجیکٹ، نوجوانوں کے لئے خود روزگار کے اقدامات اور دانش سکولز کے لئے اقدامات شامل تھے۔ 30میں سے 14صفحات پڑھنے کے بعد انہوں نے پانی کے چند گھونٹ پئے۔ اس دوران اکثر مواقع پر وزیراعلیٰ ارکان کو یہ اشارہ کرتے رہے کہ وہ اگلے پوائنٹ پر زوردار تالیاں بجانے کے لئے تیار رہیں۔ یہ موقع اس وقت آیا جب جنوبی پنجاب کی ترقیاتی سکیموں کا ذکر کیا جانا تھا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے وارث کلو کا کردار قابل ذکر ہے جو کامران مائیکل کے ڈائس کے بالکل قریب تھے۔ تقریر کے بعد اسمبلی کے باہر پیپلزپارٹی کی ایم پی اے عظمیٰ بخاری نے گفتگو کرتے ہوئے یہ نقطہ اٹھایا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن نے بجٹ پیش کیا اور پہلی بار تقریر سے قبل بسم اللہ نہیں پڑھی گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کامران مائیکل نے عربی میں بسم اللہ پڑھی اور اردو میں اس کا ترجمہ بھی کیا۔ مجموعی طور پر اپوزیشن اس حوالے سے قابل تحسین ہے کہ ہار کے واقعہ کے سوا انہوں نے مائیکل کی تقریر وزیراعظم کے وعدے کے مطابق پورے صبر و تحمل سے سنی۔ بجٹ تقریر کے حوالے سے یہ تاثر تھا کہ معاشرے کے امیر طبقے پر مزید ٹیکس لگیں گے اور زیادہ تر ایسا ہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ امیر ترین طبقہ جاگیرداروں، بڑے زمینداروں پر مشتمل ہے جوکہ معیشت کی جی ڈی پی کا زیادہ تر حصہ کنٹرول کرتے ہیں، اگر اس وقت نہیں تو پھر کس وقت زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگنا چاہئے اور یہ جتنی جلدی لگے اتنا ہی اچھا ہے۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ ہزاروں ایکڑ اراضی کا مالک ہے، صرف سوئمنگ پولز اور 100ایکڑ اراضی کے مالکوں پر ٹیکس لگانا ہی کافی نہیں ہے، اگر ملک کو مالی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے تو تمام صوبوں کو زرعی ٹیکس کا نفاذ شروع کر دنیا چاہئے۔ تمام اسمبلیوں کے ارکان جن میں اکثریت اشرافیہ طبقے کی ہے انہیں ایک مثال قائم کرنا ہو گی۔