لاہور (احمد جمال نظامی سے) 139ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں جرنیلوں اور کمانڈروں نے ملک کے موجودہ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کرنے کی بجائے جمہوری عمل کی حمایت جاری رکھیں گے۔ اجلاس میں امریکہ کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کا مکمل جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے دبا¶ قبول نہیں کیا جائے گا۔ آپریشن کی نوعیت اور اس کے وقت کا سیاسی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ ڈرون حملے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں حکومت ان حملوں کو سیاسی ڈائیلاگ سے رکوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ افواج پاکستان ملک کا انتہائی باوقار ادارہ ہے پاکستان کو جس طرح بھارت سے ازلی دشمنی وراثت میں ملی ان حالات میں پاک فوج کا جدید اسلحہ سے لیس ہونا اور جدید حربی طریقوں کے مطابق تربیت یافتہ ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔2 مئی کو امریکہ نے پاکستانی حکومت اور پاک فوج دونوں کو اعتماد میں لئے بغیر ایبٹ آباد آپریشن کیا اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ سانحہ ایبٹ آباد ہمارے سکیورٹی اداروںکی صلاحیتوں اور ان کی کارکردگی کے حوالے سے سوال بن کر سامنے آ گیا جس پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئی ایس آئی کے سربراہ نے بریفنگ دی اور پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظورکی جس کے مطابق وزیراعظم سے کہا گیا کہ وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے سانحہ ایبٹ آباد کے حوالے سے اعلیٰ اختیاراتی آزادکمیشن قائم کرے مگر اس معاملہ کو مو¿خر کرنے سے اپوزیشن کے لیڈروں میں بدگمانیوں نے جنم لیا اسی دوران 22 مئی کو کراچی میں پاکستان کے نیول ہیڈکوارٹرز پر حملہ ہو گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی میں ناکامی نے مقتدر حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ قومی حزب اختلاف کے لیڈروں کے لب و لہجہ میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کے لئے بھی تلخی آ گئی۔ حکومت کی طرف سے سانحہ ایبٹ آباد پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام میں تاخیر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس دوران چونکہ امریکہ کی وزیرخارجہ ہلیری اور چیف آف آرمی سٹاف ایڈمرل مولن نے بھی پاکستان کا دورہ کر کے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں کی اشک شوئی کرنے اور پاکستان کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ باخبر ذرائع کے مطابق صدر اور وزیراعظم نے ڈرون حملوں کی بندش اور ڈومور کے تقاضوں سے بچنے کے لئے پارلیمنٹ کی قرارداد کا مسودہ ہلیری کلنٹن اور مولن کے سامنے رکھا، سانحہ 2 مئی کے حوالے سے کمیشن کے قیام میں تاخیر نے بہت سے سوال پیدا کر دیئے ہیں۔ قومی سلامتی کے حوالے سے سوچ بچار کرنے والے حلقوں میں اس قسم کی چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں کہ حکومت امریکہ کے دبا¶ میں آ گئی ہے اور سانحہ ایبٹ آباد پر کمیشن مقرر کرنے سے گریزاں ہے۔ بعض حلقوں میں یہ گماں ہونے لگا کہ پاک فوج سانحہ ایبٹ آباد کی تحقیقات سے بچنا چاہتی ہے اس کے برعکس ایک طبقے میں یہ سوچ بھی پیدا ہونے لگی کہ سانحہ ایبٹ آباد کی تحقیقات سے چونکہ پاکستان کے سکیورٹی اداروںکی کمزوریاں سامنے آ سکتی ہیں اور اگر بعض مقتدر حلقوں یا کسی ادارے کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا تو یہ بات اب بین الاقوامی میڈیا میں نہیں آنی چاہئے لہٰذا ایبٹ آباد کمیشن کی تشکیل اور اس کے قیام کے حوالے سے حکومت یقینا بہت سے خدشات اور تحفظات کا شکار ہو گئی حکومت نے بہ امر مجبوری کمیشن تشکیل دیتے وقت اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خاں کی طرف سے ممکنہ ارکان کے ناموں کی دی گئی فہرست میں سے صرف ایک شخصیت جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کا نام اس میں شامل کیا۔ اپوزیشن نے اس تحقیقاتی کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف اور بعض دوسرے لیڈروںکی طرف سے پاک افواج کے حوالے سے کچھ ناخوشگوار تنقید بھی ہوتی رہی۔ پاک فوج کو ملنے والے بجٹ کو پارلیمنٹ سے منظورکرنے کا سوال بھی اٹھایا گیا۔ یہ سب کچھ فی الحقیقت جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر 1999ءکے ٹیک اوور اور اس کے بعد مسلسل 9 سال تک اقتدار میں رہنے کے خلاف ردعمل ہے جو مشرف کے منظر سے ہٹ جانے کے حوالے سے یقیناً بے وقت کی بانسری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اب 12اکتوبر 1999ءکے ٹیک اوور کے کرب سے باہر آ جانا چاہیے۔ پاک فوج پر بے جا تنقید اور پاک فوج پر خرچ ہونے والی رقوم کا آڈٹ کر کے من حیث القوم ہم اپنے دشمنوں کو اپنی سکیورٹی اور دفاع کے راز نہیں بتاسکتے۔ یہ سب خفیہ رہنا چاہیے کیونکہ تمام ارکان پارلیمنٹ زیر بحث آنے والے حساس معاملات پر زبان بند نہیں رکھ سکتے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں ہونے والی کارروائی پوری دنیا کو معلوم ہو چکی ہے، خود حکمرانوں نے اس کارروائی کے بعض خفیہ حصوں کے حوالے سے امریکی وزیرخارجہ اورامریکی آرمی چیف کو بریفنگ دی ۔ ان حالات میں 139ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں بجا طور پر بعض سیاسی عناصر کی طرف سے پاک فوج پر ہونے والی تنقید کو تعصبات کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے اور اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پاک فوج کو گذشتہ دس برسوں کے دوران 1.4ارب ڈالر ملے، پاک فوج سے منسوب اتحادی سپورٹ فنڈ سے ملنے والے باقی 6ارب ڈالر حکومت نے بجٹ کے لئے استعمال کئے۔ کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے امریکہ سے اب ایف سی کی تربیت اور جدید ہتھیاروں کا معاملہ ختم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں موجود امریکی فوجی دستوںکی تعداد کم کر دی گئی ہے، اخراجات کے حوالے سے پاک فوج پر تنقید کرنے والوں کو اس کانفرنس میں یہ حقیقت بتانے کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ پاک فوج کو امریکہ کی طرف سے 13 سے 15ارب ڈالر دیئے جانے کی بات درست نہیں۔ امریکہ کی طرف سے حال ہی میں پاک فوج کو دہشت گردی کی جنگ میں 15ارب ڈالر دیئے جانے کا پراپیگنڈہ سامنے آیا تھا اگر امریکہ نے فی الواقعی اس جنگ کے حوالے سے پاک فوج کے لئے 15ارب ڈالر دیئے ہیں تو وضاحتکے بعد اس رقم کے لئے جنرل پرویز مشرف اور موجودہ صدر آصف علی زرداری سے پوچھا جانا چاہئے کہ یہ رقم امریکہ سے پاک فوج کے نام سے کون وصول کرتا رہا ہے یا کون وصول کر رہا ہے؟
تجزیہ احمد جمال
تجزیہ احمد جمال