کالا باغ ڈیم کی جھیل سے صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے علاوہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے کچھ ایسے اضلاع کو پانی مہیا کی جا سکے گی جہاں پر زمین کی سطح اونچی ہونے کی بدولت کسی بھر ذریعہ سے نہری پا نی خود بخود نہیں پہنچ پاتا۔ دیامیر بھاشا ڈیم، تربیلا ڈیم اور اخوڑی ڈیم کا پانی بھی کالا باغ ڈیم سے ہی گزرے گا چنانچہ اپریل کے مہینہ سے چاول، گنا اور کپاس کی کاشت کیلئے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کیلئے پانی مہیا ہونا شروع ہو گا، مون سون کی بارشوں کا پانی، چاروں ڈیموں کو بھرنے کیلئے بھی استعمال ہو گا اور کاشت کاری کیلئے مسلسل پانی مہیا ہوتا رہے گا۔ ان تمام ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی کو ربیع کی فصل کی کاشت کیلئے اکتوبر سے مارچ تک پانی مہیا کیا جائیگا۔جہاں تک صوبہ خیبر پختونخواہ کے اعتراضات کی بات ہے تو کالا باغ ڈیم کی جھیل نوشہرہ سے سولہ کلو میٹر دور ختم ہو جائے گی۔ نچلی ترین زمین مردان میں 970فٹ، پبی میں 960 فٹ صوابی میں 1000فٹ سطح سمندر سے بلندی پر ہے جبکہ کالا باغ ڈیم کا پانی 915 فٹ سطح سمندر سے بلندی پر ہے لہٰذا یہ خوف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ بالا علاقہ جات کو نقصان ہو سکتا ہے۔اس وقت دیامیر بھاشا ڈیم، اخوڑی ڈیمز، کچھی کینال، گریٹر تھل کینال، LBOD' RBOD اور رینی کینال پر کام جاری ہے اور سیہوں بیراج پر کام ابتدائی مراحل میں ہے جبکہ کالا باغ ڈیم پر کام روک لیا گیا ہے، کیونکہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام اس ڈیم کو بنانے کیلئے راضی نہیں ہیں۔ہم سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو کیسے ریجھائیں اور منا ئیں جبکہ وہ سننے کے لئے ہی تیار نہیں۔ پاکستان ایک وفاقی جمہوری مملکت ہے پاکستان کی عوام ملک کی اصل قوت ہے اور عوام کی مرضی سپریم ہے۔ لہ©ٰذا عوام کی مرضی سے ہی عوام کی فلاح کے منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں کئی ممالک مثلاً ترکی، جاپان اور چین نے سینکڑوں ڈیم لوگوں کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر بنا لئے۔ ان کا معاملہ مختلف ہے جبکہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ یہا ں پر تین صوبوں کے عوامی نمائندوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی ہے اس لئے عوامی مرضی کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ کچھ لابیز کی رائے ہے کہ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کی مرضی کی پرواہ کئے بغیر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے کیونکہ ہر ملک کی معیشت کے لئے اہم ہے مگر یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت، صوبوں کے عوام کی دباﺅ کے سامنے بے بس ہو کر رہ جائے گی۔ ملک کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ صوبوں کے عوام کو ڈیم بنانے کے لئے راضی کریں۔ ایسا ہی ایک معاملہ امریکی عوام کے ساتھ ہوا تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مغربی حصہ کے کاشتکار چاہتے تھے کہ کوئی ایسی صورت بنے کہ وافر پانی مل سکے تاہم اچھی فصل اگائی جا سکے۔ سخت موسم اور کم بارشوں کی وجہ سے اچھی فصل حاصل نہیں کر سکتے تھے امریکی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ ریاست واشنگٹن میں کولمبیا دریا پر ڈیم تعمیر کیا جائے تو اس سے حاصل شدہ بجلی کی پیداوار کی آمدن سے ڈیم پر اٹھنے والے اخراجات پورے کئے جا سکتے ہیں اور ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی سے اچھی فصلوں کی پیداوار ہو سکتی ہے جس سے عوام میں خوشحالی آ سکتی ہے، مگر دیگر ریاستوں نے اس ڈیم کی شدید مخالفت کی۔ تقریباً چالیس سال تک یہ جھگڑا جاری رہا۔ آخر امریکی سیاست دانوں کی عوامی مشاورت اور طویل ڈبیٹ کے بعد اور کانگریس میں بحث مباحثہ کے بعد کولمبیا دریا پر گرینڈ کُلی ڈیم (Grand Coulee Dam) کی تعمیر کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ گرینڈ کلی ڈیم پر 1993ءمیں کام کا آغاز ہوا۔ ڈیم کی جھیل میں 150میل تک علاقہ میں 11شہر، 2ریل روڈ، 150میل سڑکیں، قبرستانیں، فون اور بجلی کی سینکڑوں میل لمبی لائنیں زیر آب آ گئیں۔ اکتوبر 1941 یعنی امریکہ کے دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے سے دو ماہ قبل ڈیم پر ہائیڈروپاور کا پہلا جنریٹر نصب ہوا اور اس نے بجلی کی پیداوار شروع کی۔ ڈیم کے بجلی گھر سے امریکہ کے منہاٹن پروجیکٹ کے ہنفورڈ سائیٹ Hanford siteکو بجلی فراہم ہو گئی جس کی بدولت ایٹم بم بنانا ممکن ہوا۔ اس کے علاوہ ڈیم کی ہائیڈروپاور بجلی گھر سے المونیم فیکٹری اور جنگی ہوائی جہاز تیار کرنے کی انڈسٹری کو بجلی فراہم کی گئی۔ گرینڈ کلی ڈیم ہی واحد سہارا تھا جس کی ہائیڈل بجلی کو استعمال کرکے امریکہ ایٹمی قوت ملک بن گیا اور دوسری عظیم جنگ کے دوران وافر جنگی ہوائی جہاز تیار کرکے لڑائی میں استعمال کرتا رہا۔ یوں اتحادیوں نے ہٹلر کو شکست دے دی۔ صحافیوں نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گرینڈ کلی ڈیم نے دوسری عظیم جنگ میں اتحادیوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔ سیاسی سطح پر بھی اسے امریکی صدر روز ویلٹ کے سر پر تاج کا سہرا قرار دیا گیا۔ آج گرینڈ کلی ڈیم سے 8609MW ہائیڈرو پاور بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس کی جھیل کی پانی سے 670,000ایکڑ زمین سیراب ہو رہی ہے۔ پاکستان کے کالا باغ ڈیم کی اہمیت بھی امریکی گرینڈ کلی ڈیم جیسی ہے۔ آجکل کے معاشی تنزلی اور بدحالی کی صورتحال سے نجات کا واحد ذریعہ کالا باغ ڈیم ہی بن سکتا ہے۔ اس لئے ہماری سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے تمام میگا ڈیمز پر کام کو مہمیز دیں تاکہ وہ جلد از جلد مکمل ہو جائیں۔ کالا باغ ڈیم کے متعلق صوبوں کے عوام میں آگہی پیدا کریں۔ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام اور عوامی نمائندوں کے خدشات حقائق کی روشنی میں دور کریں اور انہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر راضی کریں اور جلد از جلد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کریں۔ عوام کو اپنی منتخب نمائندوں کی نیک نیتی اور ملکی معیشت کی بحالی کے جذبہ کا تب یقین ہو گا جب آنے والے قومی بجٹ 2013-14 میں بھاشا ڈیم، اخوڑی ڈیم اور کالا باغ کی تعمیر کے لئے واضح طور پر فنڈز مختص کئے جائیں گے۔ عوام توقع کرتی ہے کہ نئی حکومت تندہی سے ڈیمز، ہائیڈرو پاور پراجیکٹس، بیراجز، کینالز اور بارانی ڈرینز پر تندہی سے کام کرتے رہیں گے تاکہ بروقت مکمل ہو کر ملکی معیشت کی بحالی کو یقینی بنا سکیں۔