5جون کو، میاں نواز شریف جب، وزیرِاعظم منتخب ہُوئے تو، پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر، مخدوم جاوید ہاشمی نے، قومی اسمبلی کے ایوان میں، میاں صاحب کو مبارکباد دیتے ہُوئے، سبھی کو حیران کر دیا جب انہوں نے کہا کہ۔”اختلافات اپنی جگہ،لیکن میاں نواز شریف،میرے لیڈر تھے اور اب بھی میرے لیڈر ہیں“۔تو، پاکستان تحریکِ انصاف میں کھلبلی مچ گئی۔سوشل مِیڈیا پر،تحریک ِا نصاف کے کارکنوں نے، ہاشمی صاحب پر اتنی زیادہ۔”بلّا بازی“۔کی کہ چیئرمین عِمران خان کوحرکت میں آنا پڑا۔ انہوں نے فوراً قومی اسمبلی میں، جناب شاہ محمود قریشی کو تحریکِ انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر نامزد کر دیا اور ہاشمی صاحب کو بھی طلب کر لِیا اور انہیں میاں نواز شریف کی ستائش میں دِیا گیا، بیان واپس لینے کی ہدایت کی۔ ہاشمی صاحب کو ،حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا تو، انہوں نے، اعلان کر دِیا کہ ۔”میرے حلقے کے جو ،نوجوان، میری انتخابی مُہم کے دوران، میرے جلوس کے آگے آگے ہوتے تھے، انہوں نے میاں نواز شریف کو لیڈر ماننے کے بارے میں، میرا بیان قبول نہیں کِیا۔ مجھ پر اُن کا Pressure (دباﺅ کا زور) تھا اور میرے خاندان کے لوگوں کا بھی پریشر تھا۔ مُلتان کی سوچ بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں کی سوچ یہی تھی کہ، مَیں اپنا بیان واپس لے لُوں۔ مَیں اپنے لوگوں کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتا۔ مَیں نے اپنا بیان واپس لے لِیا“۔ دروغ برگردنِ راوی کہ ہاشمی صاحب نے، میاں نواز شریف کو۔ اپنا لیڈر تسلیم کرنے کا بیان۔ ”بلڈ پریشر“۔ کے باعث دِیا تھا۔
جاوید ہاشمی، عُمر میں، عمِران خان سے تقریباً چار سال بڑے ہیں، انہوں نے، ہاشمی صاحب کو بزرگ سمجھ کر، اُن کے خلاف انضباطی کارروائی تو نہیں کی،لیکن اُن سے قومی اسمبلی میں، اپنا ڈپٹی بننے کا موقع چھِین لِیا۔ یوں بھی، ہاشمی صاحب کی نسبت، جناب شاہ محمود قریشی کا، اردو اور انگریزی میں شِین۔ قاف۔ زیادہ درُست ہے۔ جنابِ ہاشمی نے، اپنی سیاست جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیم ۔”اسلامی جمعیت طلبہ“۔ کے پلیٹ فارم سے شروع کی تھی اور صدر جنرل ضیااُلحق نے انہیں وفاقی وزیر بھی بنا دیا تھا، لیکن اُن کی شہرت اور عوامی مقبولیت مسلم لیگ ن میں رہ کر ہُوئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے صدربنائے گئے تو،ہاشمی صاحب نے مرزا اسد اللہ خان غالب کے اِس شعر کا حق ادا کر دِیا۔ ۔۔
” چھیڑ خُوباں سے ، چلی جائے اسد
کچھ نہیں ہے تو ، عداوت ہی سہی“
جناب جاوید ہاشمی کے، ایک پُرانے مُلتانی دوست، میاں عبدالشکور صابر نے مجھے، جناب ہاشمی کے ۔”باغی“۔ہونے کی وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ۔”ہاشمی صاحب کو بچپن سے ہی باغوں میں گھومنے پھِرنے کا شوق رہا ہے۔خاص طور پر مُلتان کے قاسم باغ میں۔ گذشتہ کئی دِنوں سے وہ (شاید میاں نواز شریف کو یاد کرکے) ۔اُستاد بڑے غلام علی خان کا گایا ہُوا یہ ۔”اردو ماہیا“۔ اکثر گنگنایا کرتے تھے“۔۔۔
”باغوں میں ، پڑے جھُولے
تُم ہمیں، بھُول گئے
ہم تُم کو ، نہیں بھُولے “
میاں عبدالشکور صابر کے مطابق۔”جناب جاوید ہاشمی، صاف سُتھرے سیاستدان ہیں۔ منگل بُدھ کو گوشت خوری کا ناغہ کرتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے وقت، اپنے مُلاقاتیوں سے، اتنے خُوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے ہیں کہ، چاروں طرف، چراغاں دِکھائی دینے لگتا تھا“۔صابر صاحب کی اِس معلومات افزا گفتگو پر۔ شاعرِ سیاست نے ہاشمی صاحب کی شخصیت اورسیاست کی اِس طرح عکاسی کی ہے۔۔۔
” مَیں ، منگل بُدّھ ، کا ناغی ہُوں
اور لوڈ شیڈنگ میں ، چراغی ہُوں
کیا لینا ؟ بغاوت سے مُجھ کو ؟
مَیں باغ میں ہُوں ، اور باغی ہُوں“
جناب جاوید ہاشمی کی طرف سے، میاں نواز شریف کے لئے،، خیر سگالی کے جذبات کے اظہار سے، مسلم لیگ ن میں اُن کے لئے محبت کا ماحول پیدا ہوگیا تھا،لیکن ہاشمی صاحب، اِس حقیقت کو نظر انداز کر گئے تھے کہ، پاکستان تحریکِ انصاف کے اصل لیڈر عِمران خان ہیں اور وہ ہاشمی صاحب کی طرف سے، میاں نواز شریف کو۔ ”اب بھی میرے لیڈرہیں“۔ کہنے پر بُرا منا سکتے ہیں۔ اب ہاشمی صاحب کے۔”بیان کی واپسی“۔ کے بعد مسلم لیگی کارکن ہاشمی صاحب کو تصوّر میں لا کر، استاد راسخکا یہ شعر پڑھتے ہیں۔۔۔
”نِکلا تھا پہلے، لفظِ قسم، ٹُوٹ ٹُوٹ کر
پَیماں شِکن، پھِر اپنی قسم سے، نِکل گیا“
اِس سے قبل،مسلم لیگ ن کو،پَیماں شِکنی یعنی وعدی فراموشی پر۔ صدر زرداری سے بھی گِلہ ہُوا تھا۔ جب موصوف اقتدار میں آکر، وعدہ کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت،دوسرے ججّوں کی بحالی میں ٹال مٹول کر رہے تھے اور جب ایک نجی چینل کے اینکر پرسن نے، ایک انٹرویر میں صدر زرداری سے پوچھا کہ۔”آپ اپنے وعدے کے مطابق ججّوں کو بحال کیوں نہیں کر رہے؟“۔ تو جنابِ زرداری نے کہا ۔”ججّوں کی بحالی پر میرا بیان۔ محض ایک سیاسی بیان تھا۔ مَیں نے کوئی قُرآن و حدیث کی بات تو نہیں کی تھی“۔ یعنی، صدر زرداری نے واضح کر دِیا تھا کہ ۔انہوں نے اپنا پہلا بیان بدل لِیا ہے،لیکن لانگ مارچ کے بعد، صدر صاحب کو، ایک بار پھِر اپنا بیان بدلنا پڑا۔ جناب جاویدہاشمی نے بیان بدلنے کے لئے، پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنو ں کے لانگ مارچ کا انتظار نہیں کِیا۔ چار دِن بعد ہی بیان بدل لِیا۔ اِس لحاظ سے، ہاشمی صاحب۔ صدر زرداری سے دُور رہ کر بھی اُن کے ۔” بیان بدل بھائی“۔ بن گئے۔”ٹوپی بدل یا پگڑی بدل بھائی“۔ بننے کے لئے دونوں بھائیوں کا، آمنے سامنے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ”بیان بدل بھائی“۔ بننے کے لئے تو نہیں ! بس۔ ”نظریہ“۔ ایک ہونا چاہئے!۔