اسلام آباد (خبرنگار+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی نے 24گھنٹے میں استثنیٰ ختم کرنے کی سفارش پر عملدرآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر ہدایت کی ہے کہ تمام ڈسکو کمپنیاں اپنی رپورٹ میں مستثنیٰ اداروں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں جبکہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ ملک میں بجلی کا سنگین بحران ہے، کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہوا تو سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کے عہدہ سے مستعفی ہو جاﺅں گا۔ پیر کو یہاں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس سینیٹر زاہد خان کی زیر صدارت ہوا جس میں ملک بھر میں جاری لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تقسیم کار کمپنیوں نے رپورٹ پیش کی اور ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا جائزہ لیا گیا۔ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یونس خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاﺅس، آئی ایس آئی، جی ایچ کیو، ججزکالونی، سپریم کورٹ، ڈپلومیٹک انکلیو، نیب، نادرا اور پنجاب ہاﺅس لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں اور لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی جس پر سینیٹر زاہد خان نے کہاکہ ذمہ دار افسران کا تعین اور سزا کا فیصلہ کیا جائےگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کا بہت بڑا بحران ہے جبکہ 16 سے 21 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ 24 گھنٹے میں استثنیٰ ختم کرنے کی سفارش کی تھی اور اگر اس پر عمل نہیں ہوا تو کمیٹی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہو جاﺅں گا۔ کمیٹی کی سفارشات پر اگر عمل نہ کیا گیا تو کمیٹی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے آخری حد تک جائیگی اور غفلت کے مرتکب تمام اداروں کیخلاف کارروائی کریگی۔ اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی نے وفاقی وزیر اور سیکرٹری برائے پانی وبجلی کی کمیٹی میں عدم شرکت کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنائیں۔ کمیٹی نے بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام ڈسکو کمپنیاں اپنی رپورٹ میں مستثنیٰ اداروں کے بارے تفصیلات سے آگاہ کریں۔ سینیٹر زاہد خان نے کہاکہ پورے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا یکساں نظام نافذ نہ کیا گیا تو اس بحران کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کیسکو کو ہدایت کی کہ اپنی کارکردگی کو بہتر کریں ورنہ ان کی نجکاری ختم کر کے واپڈا کے حوالے کر دیا جائیگا۔ آئسیکو کے چیف ایگزیکٹو نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اب بھی ہو رہی ہے لیکن وزیر اعظم ہا¶س، خیبرپی کے، پنجاب اور بلوچستان ہا¶سز میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ، پی ایم ہا¶س اور دوسرے ادارے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟ یہ کونسی پالیسی ہے کہ گھروں کو بجلی نہ ملے اور بڑے انجوائے کریں۔ انہوں نے کہاکہ 21گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، سفارشات ہسپتال اور دفاعی تنصیبات کے سوا کوئی مستثنیٰ نہیں۔ کے ای ایس سی کو قومی گرڈ سے بجلی سپلائی روکنے کے فیصلے پر عمل کرائیں گے۔ سینیٹرز زاہد خان نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں اور دفاعی تنصیبات کے علاوہ سپریم کورٹ‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ پارلیمنٹ ہاﺅس سمیت تمام سرکاری اور قومیائے اداروں میں یکساں لوڈشیڈنگ کی جائے۔کمےٹی نے وفاقی وزےر اور سےکرٹری پانی وبجلی کی اجلاس مےں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کل کے اجلاس مےں اپنی شرکت کو لازمی بنائےں۔کمےٹی نے بجلی پےدا کرنے والی کمپنےوں کی برےفنگ پر عدم اطمےنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام تقسیم کار کمپنےاں اپنی رپورٹ مےں مستثنیٰ اداروں کے بارے تفصےلات سے آگاہ کرےں۔ چےئرمےن کمےٹی نے کہاکہ بجلی کا بحران انتہائی نوعےت اختےار کرچکاہے، ملکی معےشت تباہی کی طرف جا رہی ہے، پورے ملک مےں بجلی کی لوڈشےڈنگ کا ےکساں نظام نافذ نہ کےا گےا تو اس بحران کو ختم نہےں کےا جاسکتا۔ انہوں نے وزارت پانی وبجلی کی طرف سے لوڈشےڈنگ کے حوالے سے کمےٹی مےں پےش کئے جانے والے غلط اعدادوشمار مستردکردئےے۔ لیسکو حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گورنر‘ وزیراعلیٰ ہاﺅس اور رائے ونڈ میں بھی لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق ہورہی ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ وزارت غلط اعداد و شمار پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ کیلئے تمام ا قدامات بروئے کار لائیں گے۔ دریں اثناءحکام ایوان صدر نے کہا ہے کہ پریذیڈنٹ ہاﺅس میں 10گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ صدر مملکت کئی دن پہلے خود ہدایت کر چکے ہیں کہ ایوان صدر کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ نہ رکھا جائے۔