مودی سرکار کے اثرات

Jun 11, 2014

محمد یوسف عرفان

نریندر مودی ہندو فکر و عمل کا پیکر ہے۔ نریندر مودی کا انتخابی نعرہ امن، ترقی اور خوشحالی ہے جبکہ گجرات میں مسلم کشی 2002ء کا ماسٹر مائنڈ، نگران اور سرپرست وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھا۔ گو اس وقت مرکز میں نام نہاد سیکولر کانگرس کی حکومت تھی جس کی اشیرباد کے بغیر سانحہ گجرات نہیں ہو سکتا تھا۔ نریندر مودی انتہا پسند ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جس کا انگریزی تجربہ (بھارتی پیپلز پارٹی) کے لیڈر ہیں انکے سیاسی سفر کا آغاز مسلم کش انتہا پسند ہندو پارٹی آر ایس ایس سے ہوا تھا۔ فی الحقیقت بی جے پی، بجرنگ دل، شیوسینا، سینروں بریگیڈ، ابھیتو بھارت وغیرہ کانگرس کی دوغلی سیکولر پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ بھارت کے آئین ساز وزیر قانون ڈاکٹر امبیدکر نے کانگرس کی سرکاری رام راج پالیسی کے مہلک اثرات کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت قومی اکائی نہیں بلکہ یو ایس اے کی طرح یو ایس آئی ریاستہائے متحدہ انڈیا ہے۔ بھارت مختلف قوموں، نسلوں، قبیلوں اور مذہبوں کی دولت مشترکہ ہے، کسی ایک مذہب کا سرکاری نفاذ بھارت کو افتراق اور انتشار کا شکار کر دے ، علاوہ ہندو ازم کے ذات پات، چھوت چھات اور اونچ نیچ کے مذہبی نظام نے بھارت کی اکثریتی آبادی اچھوت، دلت، شودر یعنی ایس سی/ ایس ٹی/ او بی سی کو بنیادی حقوق اور انسانی مساوات سے محروم کر رکھا ہے۔ دریں صورت رام راج کی سرکاری پالیسی کابل کے غزنوی، غوری حکمرانوں کو دعوت اقتدار دیگی اور بھارت کی مذکورہ مظلوم نسلوں کیلئے یہ نجات دہندہ ہونگے۔ نریندر مودی کی بی جے پی سرکار نے کانگرس کے نام نہاد سیکولر لبادے کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کے خطے جنوبی ایشیا میں زیادہ مہلک اور منفی اثرات ہونگے۔
نریندر مودی عزم و ہمت اور ظلم و بربریت کا مظہر ہے انکے باپو ٹرین میں چائے بیچتے اور ماتا گھروں میں کام کرتی تھیں۔ گودھرا ریلوے سٹیشن گجرات مسلم کش تحریک کا فوری سبب بنا۔ گودھرا ٹرین بوگی کو آگ لگانے کا الزام مسلمانوں پر تھونپا گیا جبکہ بھارت کی سپریم کورٹ نے تحقیقات کے بعد فیصلہ دیا تھا کہ سانحہ گودھرا اور گجرات میں مسلم کشی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی منصوبہ بندی اور نگرانی میں ہوا۔ سانہہ گودھرا میں مسلمان ملوث نہیں تھے۔ نریندر مودی اور دیگر ہندو انتہا پسند قیادت اور جماعتوں نے بھارتی عوام کو مسلمان اور پاکستان کیخلاف اس قدر مشتعل کر رکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گرو کی پھانسی کے وقت فیصلہ لکھا کہ پارلیمنٹ ہائوس حملے میں افضل گرو ملوث نہیں۔ یہ بھارت کی انٹیلی جنس کا شاخسانہ تھا مگر عوامی جذبات کی تسکین کیلئے افضل گرو کو پھانسی دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران حکومت اور عدالت غیر جانبدار پالیسی اور فیصلوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے الیکشن 2014ء خطے میں اہم تبدیلیوں کے عکاس ہیں۔ یہ الیکشن پاکستان مخالفت اور مسلم کشی کی حمایت کے پس منظر میں لڑا گیا۔ نریندر مودی کو انتہا پسند ہندو پالیسی کے نفاد کیلئے بھاری اکثریت (ہیوی مینڈیٹ) ملا ہے۔ نریندر مودی عالمی منصوبہ بندی اور ہندو انتہا پسندی کا آلہ کار ہے۔ اگر ہندو ازم کی روایتی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہندو عوام اور قیادت کسی غیر مسلم قوم معاشرے اور مذہب کو زندہ نہیں رہنے دیتی۔ بھارت کسی مظلوم مگر سابق حکمران اچھوت قومیں اپنا ماضی، حال اور مستقبل کی شناخت کھو کر سرمایہ دار ہندو برہمن کے آلہ کار بن کر مسلم کشی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ گجرات مسلم کش تحریک میں نریندر مودی نے اچھوت اور دلت بیروزگار نوجوانوں کو استعمال کیا تھا۔ نریندر مودی کی انتخابی جیت میں بھارتی اور عالمی سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری ہے۔ اس برہمنی اور عالمی سرمایہ کار گٹھ جھوڑ کے پاکستان پر شدید منفی اثرات پڑینگے۔
ہندو ذہنیت بہترین چاکری اور بدترین سرداری کی ہے۔ یہ طاقتور دشمن یعنی پاکستان کو دوست بنا کر بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کریگا اور پاکستان کے دفاعی اداروں کو اپنی بقا کیلئے اپنی ہی دلدلی زمین میں الجھائے رکھے گا۔ پاک بھارت دوستی پنجابی کے بولی جیسی ہے کہ مینوں ویکھیاں چین نہ آوے، ماہی تیرا گھٹ بھر جاں۔ نریندر مودی کی غیر روایتی اور انقلابی متحرک قیادت اور حکومت کی آڑ میں پاک بھارت تجارت، دوستی اور امن کی آشا چلے گی جبکہ پاک افغان تجارتی راہداری معاہدے میں بھارت کو کلیدی اہمیت میسر ہے۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان کو جلد از جلد دوست اور دشمن کی شناخت پر مبنی نئی پالیسی استوار کرا چاہئے وگرنہ بھارت میں مودی، افغانستان میں نیٹو افواج کے علاوہ عبداللہ عبداللہ گل اور غیر حقیقی بنیاد پر ناراض رہنے والا ایران پاکستانی سرحدوں کو انتہائی غیر محفوظ بنا دیگا۔

مزیدخبریں