وفاقی حکومت کے بجٹ کے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے تجزیہ کاروں سے یہ بات تو ہرگز ڈھکی چھپی نہیں کہ حکومت نے حسب توقع اس مرتبہ بھی اپنے میزانئے میں کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کیلئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا حالانکہ اقتصادی ماہرین اور انجینئروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ بجلی کی قلت دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پن بجلی کے منصوبوں کو اولیت دی جائے جس سے نہ صرف سستی بلکہ ضرورت کے مطابق بجلی پیدا ہو سکے گی۔ تاہم بجٹ میں عوام کے دلوں میں سب سے زیادہ کھٹکنے والی جو دوسری بات ہے وہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے معاہدے پر عملدرآمد سے گریز ہے کیونکہ ایک جانب تو موجودہ حکومت بارہا عوام کو توانائی کی قلت دور کرنے کے سلسلے میں ایرانی حکومت کی امداد سے استفادے کے تذکروں سے گمراہ کرتی رہتی ہے تو دوسری جانب نہ صرف اس پراجیکٹ سے غفلت برتنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ وفاقی بجٹ میں انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ اس اس میگا پراجیکٹ کیلئے ایک پیسہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تہران میں ایرانی صدر آقائے حسن روحانی سے حکومت پاکستان کے رہنمائوں اور دونوں ملکوں کے حکام کے مابین اس منصوبے پر جو اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوتے رہے بارے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ ادھر وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد افسر شاہی کے بعض اہلکاروں نے کھل کر کہا ہے کہ نئے بجٹ میں پاک ایران پراجیکٹ کیلئے رقم مختص نہ کرنے کا اقدام دانستہ کیا گیا ہے کیونکہ حکومت ایران سے توانائی کے حصول کے منصوبوں پر عملدرآمد چاہتی ہی نہیں اور جب کبھی وفاقی وزراء کے پراجیکٹ کے حق میں کوئی بیانات سامنے آتے ہیں تو وہ صرف دکھانے کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں پٹرولیم و گیس کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی اور بجلی و آبپاشی کے وزیر خواجہ محمد آصف کے دورہ تہران کے موقع پر ٹھوس الفاظ میں یہ بیان جاری کیا گیا تھا کہ دونوں حکومتیں گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کا تہیہ کر چکی ہیں اور اس بارے میں منفی انداز میں جاری کردہ بیانات محض اپوزیشن کا پراپیگنڈہ ہیں۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ بجٹ میں منصوبے کیلئے رقم مختص نہ ہونے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ باہمی معاہدے کی اس شق پر بھی ہر صورت میں عمل کیا جائیگا جس میں دونوں ملکوں میں اتفاق کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان نے معاہدے پر عملدرآمد سے دانستہ گریز کیا اور 31 دسمبر 2014ء تک منصوبے پر کام شروع نہ کیا تو یکم جنوری سے ایرانی حکومت کو روزانہ 30 لاکھ روپے جرمانہ بھی دینا پڑیگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے توانائی کی قلت سے متعلق پاکستان کے سنگین بحران کو دور کرنے کیلئے جو پیکج دیا تھا اس کے مطابق نہ صرف پاکستان کی گیس کی مکمل ضروریات پوری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا بلکہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی بھی سستے داموں سپلائی کی جانی تھی۔ منصوبے کی تفصیلات کے مطابق تین ارب ڈالر کے اخراجات آسان قسطوں پر اٹھائے جانے تھے بلکہ ابتدائی مرحلے میں خود ایرانی حکومت نے 50 کروڑ ڈالر کا خرچہ برداشت کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ پیکج کے تحت پاکستان کو سستے داموں تیل کی سپلائی کا فیصلہ بھی کیا گیا اور توانائی بحران دور کرنے کیلئے مزید مراعات کی پیشکش بھی کی گئی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ گیس کی فراہمی کیلئے پاکستانی سرحد تک ایرانی علاقے میں پائپ لائن کی تنصیب کا کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے جبکہ سندھ کے شہر نواب شاہ تک پاکستانی علاقے میں 900 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کی تنصیب کا کام ابھی شروع بھی نہیں کیا گیا۔ حیران کن معاملہ یہ ہے کہ ابتدا میں حکومت پاکستان کی جانب سے اس میگاپراجیکٹ پر عملدرآمد میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بہانہ بنایا جاتا تھا کہ چونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان صنعتی و اقتصادی تعاون کے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے اور اسی مقصد کیلئے اوبامہ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی سطح پر ایران پر اس سلسلے میں متعدد پابندیاں بھی لگا رکھی تھیں۔ انہی پابندیوں کی آڑ لے کر امریکی حکومت نے پاکستان کو گیس سپلائی کیلئے ترکمانستان کے ساتھ تعاون کے معاہدے میں امداد کی پیشکش کر رکھی تھی حالانکہ اس پراجیکٹ کیلئے پائپ لائن کی تنصیب کے اخراجات ایرانی پائپ لائن سے چار گنا ہونے ہیں تاہم حکومت پاکستان نے ایک جانب ایران کے ساتھ گیس پراجیکٹ کیلئے مذاکرات جاری رکھے اور دوسری جانب امریکی پابندیوں سے پیدا شدہ رکاوٹوں کو بہانہ بنایا اور اس طرح توانائی بحران کے حل کیلئے ایران جیسے دوست اسلامی ملک کی امداد اور تعاون کی پیشکش سے استفادے کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے۔