لاہور (سید شعیب الدین سے) پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرینگے تو دلدل میں پھنس جائیں گے۔ حکومت چاہتی ہے مذاکرات ہوں مگر طالبان کی طرف ایسے عناصر ہیں جو مذاکرات نہیں چاہتے۔ ہمیں مذاکرات کرنا ہیں، جو مذاکرات نہیں ہونے دے رہے انہیں الگ کر کے ان سے بات کرنا ہے۔ فضل اللہ افغانستان میں چھپ کر بیٹھا ہے ہمیں اسکو تنہا کرنا ہے۔ افغانستان سے کہنا ہے فضل اللہ کو پناہ کیوں دی، اسے نکالو۔ ہمیں ان طالبان سے بات کرنا ہے جو ملک چھوڑ کر نہیں بھاگے اور دشمنوں سے ساز باز نہیں کی۔ نوائے وقت سے خصوصی انٹرویو میں جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا افغانستان اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جہاں اب بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ سوویت یونین کے بعد امریکہ بھی جنگ ہار کر افغانستان سے واپس جا رہا ہے۔ امریکہ نے بار بار مشرف سے ڈومور کہا اس نے نہیں کیا، سابقہ حکومت نے بھی ڈومور کی امریکی بات نہیں مانی۔ آج کہا جا رہا ہے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرو تاکہ فوج وہاں ایسی پھنس جائے کہ نکلنا مشکل ہو جائے۔ اگر ہم نے آدھی فوج افغانسان کی سرحد پر لگا دی تو ہماری مشرقی سرحدوں کو کون دیکھے گا۔ جن لوگوں کو امریکہ اور سوویت یونین ختم نہیں کر سکے ہماری فوج کو ان سے الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فضل اللہ اور اسکے ساتھی خالد خراسانی کو بھارت کا جاسوسی کا نیٹ ورک استعمال کر رہا ہے۔ ہماری فوج دس برس سے قبائلیوں سے حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ کا دائرہ وسیع ہوا تو منفی اثرات ہونگے۔ طالبان کے 5 دھڑے بن چکے ہیں صرف ایک دھڑا افغانستان میں ہے۔ ان چار دھڑوں سے مذاکرات میں رکاوٹ افغان حکومت اور بھارت کا جاسوسی نیٹ ورک ہے۔ فضل اللہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاری کرا رہا ہے۔ فوج نے بلوچستان، سوات، باجوڑ، مشرقی پاکستان میں امن قائم کر کے دکھایا مگر سیاسی حکومتیں وہاں سیاسی عمل بحال نہیں کرسکیں، حکومت کی رٹ قائم نہیں کرسکیں۔ مزید براں معروف دفاعی تبصرہ نگار جنرل (ر) نصیر اختر نے کہا ہے کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ سکیورٹی ایجنسیوں کی غفلت ہے۔ ان سے پوچھنا چاہئے تھا حملہ آور کہاں سے آئے، اتنی اموات کیوں ہوئیں۔ نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا دہشت گرد کراچی میں پہلے سے موجود ہیں۔ ایک یا دو لوگ پہنچ کر آپریشن کی کمانڈ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ٹریننگ بھی کراچی میں ہی لیتے ہیں۔ ضرورت ہے کراچی کی ’’سکریننگ‘‘ کی جائے کہ کون کہاں موجود ہے۔ سکیورٹی ایجنسیوں اور پولیس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا فوج کو ذمہ داری دیں وہ سکیورٹی ایجنسیوں کو دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے تیار کرے، ٹریننگ دے۔ دہشت گردوں کو ٹف ٹائم دینا ہوگا، پولیس کو مضبوط کرنا ہوگا۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا‘ وقائع نگار خصوصی) فرینڈز کے چیئرمین و فوج کے سابق جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جو 12 سال سے جاری ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جاسوسی کا نیٹ ورٹ بنایا ہے اس کو امریکہ سمیت تمام اتحادیوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ 2004ء میں ہماری فوج کو وزیرستان پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی اس وقت سے ہم ان کو مار رہے ہیں اور وہ ہمیں مار رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں کچھ لوگ کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ صرف کراچی میں 5 لاکھ ایسے ہیں جن میں شرپسند عناصر بھی شامل ہیں۔ نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا غیر ملکی ایجنسیوں نے پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں ان کا مقصد یہ ہے اس وقت پاکستان کی ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات ہے وہ اس کام میں مصروف رہے بلکہ کل شمالی وزیرستان بھر میں آپریشن کا فیصلہ کیا جانا ہے یہ فوج ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر تین لاکھ تک کرنی پڑے گی۔ سال کے آواخر سے افغانستان سے قابض افواج نکلیں گی تو افغانستان پر افغان طالبان کا کنٹرول ہو گا اور اس وقت ہماری فوج اپنے قبائل سے لڑتی رہی جو پاکستان اور افغانستان میں ہیں تو ہمارا تصادم افغان طالبان سے بھی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ مذاکرات کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہا کراچی میں اے ایس ایف پر دوسرا حملہ اس انتقامی کارروائی کا جواب ہے جو وادی تیراہ میں منگل کی صبح شروع کی گئی جس میں 20، 25 شدت پسند مارے گئے، بدلے کی کارروائی قبائلیوں کی سرشت میں شامل ہے یہ منظر ہم پچھلے 10،12 سال سے دیکھ رہے ہیں۔