ایوب خاں کے زمانے میں یہ ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا تھا۔ اس کے کچھ ذیلی دفاتر ہر شہر میں ’’خدمت ِ خلق‘‘ کے نام سے کام کرتے تھے۔ اُس زمانے میں مذکورہ ذیلی دفاتر خاص طور پر گم شدہ بچوں کی بازیابی کے لیے ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ ان ذیلی دفاتر میں ایک ویلفیئر آفیسر اور اس کے تحت چند ملازمین ہوا کرتے تھے۔ غالباً 1976ء کا واقع ہے کہ مانسہرہ سے موسم سرما کی تعطیلات پر اپنے عزیزوں کے ہاں لاہور آئے ہوئے دسویں کلاس کے طالب علم کو اس کے عزیزوں نے لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب ایک چھپر ہوٹل پر ملازم کروا دیا۔
لڑکا صبح 6بجے کام پر جاتا تھا۔ دسمبر کے دن تھے ایک روز لڑکا صبح کام پر گیا تو واپس نہیں آیا۔ لڑکے کی عزیزہ نوائے وقت کے ایک قاری راقم کے پڑوسی کے گھر کام کرتی تھی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ تقریباً دو ہفتے بعد لڑکے کا والد ہاتھ میں ایک خط پکڑے آیا جس پر لکھا تھا کہ ’’آپ کا لڑکا آوارہ گردی میں پکڑ کر پرانی انار کلی کے ویلفیئر کے دفتر میں لایا گیا ہے آکر اپنا لڑکا لے جائیں‘‘راقم کا پڑوسی بھی ساتھ گیا ویلفیئر کے اس دفتر میں دیکھا تو دو عدد جیل نما کمرے تھے جن میں چند ایک لڑکے بند کئے ہوئے تھے لیکن ان لوگوں کو کسی سے بات نہیں کرنے دی گئی بلکہ شناختی کارڈ اور مذکورہ خط دیکھ کر لڑکا ان کے حوالے کر کے جلدی سے فارغ کر دیا گیا۔
لڑکے نے والد کو بتایا کہ وہ ہوٹل کے قریب پہنچا تھا کہ رکشہ میں دو شخص آئے ، اس کے پاس رکشہ کھڑا کیا اوراس کو رکشہ میں ڈال کر لے گئے۔ لڑکے نے اُن کو اپنی عزیز ہ کا لاہور کا ایڈریس دکھایا۔ مگر خدمتِ خلق والوں نے خط لاہور کی بجائے مانسہرہ لکھا۔معلوم ہوا مذکورہ خدمت ِ خلق کے دفتر نے گمشدہ لوگوں کی حاضری اور تعداد ظاہر کرنا ہوتی ہے تاکہ اُن کے دفتر کی بہتر کارکردگی کے سبب دفتر کے ملازمین کی تنخواہیں اور گمشدہ برآمد کردہ لوگوں کے کھانے پینے کے اخراجات کی مد میں دفتر کو ہر ماہ رقوم ملتی رہیں۔
فرضی اور جعلی کارکردگی جانے اور کس کس محکمہ میں اور کتنی کتنی ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔
اگر ملک کا ہر باشندہ قیامت پر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی پر حق الیقین رکھتا ہو تو تمام بُرائیاں اور خرابیاں ختم ہو جائیں۔ لوگ پیغمبر آخرزمان صلعم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزاردیں۔ رزق ِ حلال کھائیں۔ پھر لوگوں کی دعائیں بھی قبول ہوں اور اولاد یںبھی نیک اور فرمانبردار ہوں اور اولیا اللہ بھی پیدا ہوں۔
موجودہ زمانے میں اولیائے اللہ کا فقدان صرف اس لیے ہے کہ رزق ِ حلال نہیں مل رہا۔ ملک میں سودی نظام ،کرپشن کی کمائی اور رشوت وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہمارے نیک اعمال کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے نامور لوگ بھی زکوٰۃ فنڈ کھانے سے گریز نہیں کرتے۔ محکمہ زکوٰۃ کے فنڈز اکثر و بیشتر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ملک کی صورت ِ حال کرپشن کے حوالے سے دن بدن خراب سے خراب تر ہو تی جا رہی ہے۔ نیچے سے اوپر تک ہر شخص (الاماشاء اللہ)جو کچھ کر سکتا ہے اُس سے زائد کرنے کے چکر میں ہے۔ ہماری عبادات روح سے خالی ہو کر رہ گئی ہیں۔ نوائے وقت کی وساطت سے قوم کے ہر فرد سے گزارش ہے کہ آئو مل کر عہد کریں ہم روز ِ حشر پر اوراپنے اعمال کی جوابدہی پر ایمان رکھتے ہیں اور بقیہ زندگی کے ایام اللہ تعالیٰ کے خوف میں گزاردیں گے۔ خود بھی کرپشن سے مکمل پرہیز کریں گے اور دوسروں کو بھی کرپشن سے بچنے کی تلقین کریں گے چند سال اگر قناعت کے ذریعہ گزار دیں تو اس کے بعد انشاء اللہ ہمارے گھروں میں اور ملک میں خوشحالی آجائے گی۔اس کے ساتھ ہم عذاب ِ قبر اور عذاب ِ حشر سے نجات بھی پا لیں گے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ’’وہ دن بڑا سخت ہو گا کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا’’ اس لیے ہم آج سے ہی اس دن کی سختی سے بچنے کی تیاری شروع کر دیں۔
(وما علینا الاالبلاغ)
فرضی کارکردگی ‘ جعلی کارروائیاں
Jun 11, 2015