گلگت بلتستان میں اسمبلی کی 24 نشستوں کے انتخابات مکمل ہو گئے۔ انتخابات میں عوام نے غیرمعمولی جوش اور دلچسپی سے حصہ لیا۔ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ انتخابی نتائج میں مسلم لیگ کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف گلگت بلتستان کے سیاسی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے میں ایک عرصہ سے دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ وہ خود بھی گلگت گئے تھے۔ انہوں نے 40 ارب کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس کا انہیں فائدہ ہوا ہے۔ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کے 84 مربع میل کا حصہ ہے۔ اس کے علاقے زیادہ تر پہاڑی ہیں۔ آبادی کم ہے یعنی 28 لاکھ۔ یہاں پر آئینی نظام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے نافذ کیا تھا۔ وہ خود گلگت تشریف لائے تھے۔ پہلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو نمایاں برتری حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت دوسری سیاسی جماعتیں ابھی پوری طرح سرگرم نہیں ہوئی تھیں۔ بھارت نے 1951ء میں ریاست جموں کشمیر کو اپنے آئین کا حصہ بنا کر اسے اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔ چونکہ بھارت خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا وہاں پر اس کے حتمی فیصلہ کیلئے 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کی دو قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانی مطلوب ہے۔ اس لیے بھارت نے کشمیریوں کو دھوکہ دینے اور دنیا کو باور کرانے کیلئے اپنے آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دے رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو قراردادیں جنہیں بھارت قبول کر چکا ہے۔ ان کی موجودگی میں بھارت کشمیر کو آئینی طور پر اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے سیاسی دماغوں نے کسی آئینی اور سیاسی جواز کے بغیر گلگت بلتستان میں اپنے نظام کے تحت اسمبلی کے انتخابات کرا کر شعوری یا غیرشعوری طور پر بھارت کے اقدام کی حمایت کر دی ہے۔ ہم اقتدار کے جنون میں یکے بعد دیگرے کشمیر کے سلسلہ میں ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن سے کشمیر کے مسئلہ اور جدوجہد آزادی کی اصل روح محروم ہو رہی ہے۔ کشمیریوں کی بے مثال جدوجہد اور قربانیوں سے یہ سلوک انتہائی افسوسناک ہے۔ ایسا لگتا ہے پاکستان کے حکمران کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی تحریک میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانہ
فضا میں بجلی نہ ہو خود اجاڑ لیتے ہیں آشیانہ
بھارت و پاکستان میں جنگ کی سی کشیدگی نہیں ہے لیکن چین کے مالی اور فنی تعاون سے کوئٹہ سے کاشغر تک اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے کی تکمیل بھارت کو بے چین کر رہی ہے۔ بھارت کی بے چینی کا یہ عالم ہے کہ اس کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورۂ چین کے دوران چین کے صدر سے ملاقات میں اس کا اظہار کیا اور بھارتی میڈیا پر اس کے وزیرداخلہ نے یہ بڑ ہانکی ہے کہ وہ یہ اقتصادی راہداری تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔ چین اور پاکستان کی دوستی کا کانٹا بھارت کے دل میں 60-50 کی دہائی سے کھٹک رہا ہے۔ چین کے انجینئرز نے شاہراہ قراقرم تعمیر کرکے اس دوستی کے رشتوں کو مضبوط بنا دیا تھا۔ عالمی قوتوں نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا۔ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو پاک چین دوستی کی اس مضبوط بنیاد پر بڑے سٹپٹائے تھے۔ اس سٹپٹاہٹ میں بھارت کو 1962ء میں تبت کے مقام سنفا میں چینی فوج کے ہاتھوں ایسی پٹائی کھانی پڑی تھی کہ اس کے لاڈلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اس صدمہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔ چین کے تعاون سے کوئٹہ سے خنجراب تک اقتصادی راہداری اور پھر چین کی طرف سے پاکستان میں 46 ارب روپے ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز بھارتی قیادت کی نیند حرام کر رہا ہے۔ اس اضطرابی ردعمل میں بھارت چین سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے حربے استعمال کرتا ہے۔
چین نے پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے دورہ کے دوران پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ اور 46 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا آغاز بھارت کیلئے سوہان روح بن گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے دفاعی نقطہ نگاہ سے دبنگ بیان دیا ہے کہ پاکستان کی فوج دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
اس موقع پر مجھے یوم تکبیر اور اس دن وزیراعظم نواز شریف جرأت مندانہ خطاب بھی یاد آ گیا۔ یوم تکبیر نہ صرف ملک بھر میں بلکہ مقبوضہ کشمیر اور بیرون ملک پاکستانیوں نے پورے جذبہ اور اس عہد کے ساتھ منایا کہ یوم تکبیر کی روح کو اپنے ایمان کا حصہ بنا کر ہمیشہ زندہ رکھا جائے گا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنہیں ایٹمی دھماکے کرنے کا قابل فخر اعزاز حاصل ہوا تھا، نے بڑے اعتماد کے ساتھ اقتصادی دھماکہ کرنے کا عہد بھی کیا ہے، ہم ایٹمی دھماکوں کو پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کے پیش نظر اور کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی آرزو کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
قائداعظم نے ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کے بامقصد اور پر معنی جملہ میں یوم تکبیر کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ میاں نواز شریف کا یہ پر اعتماد بیان کہ اب کسی دشمن کو جرأت نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ میاں نواز شریف نے خبر دار کیا کہ اس کے بدخواہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے وہ اس کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ الحمداللہ آج پوری پاکستانی قوم دہشتگردی کے مسئلہ پر یک جان اور ایک زبان ہے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب بے مثال کامیابیاں حاصل کر رہا ہے اور مادر وطن کو دہشت گردی سے نجات دلانے کی خاطر پاک فوج کے آفیسر اورجو ان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں تاکہ ہمارا حال اور ہماری نسل کے مستقبل محفوظ بنا سکیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ یوم تکبیر درحقیقت پاکستانی قوم اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے یوم افتخار ہے۔ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس دن پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں طاقت بنا تھا لہذا ہمیں یہ دن پاکستان کی وحدت اور سلامتی کے عہد کی تجدید کرتے ہوئے پورے جوش و جذبہ سے منانا چاہیے آج اس اہم دن کے موقع پر میں چائنا پاکستان کو ریڈور کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط بنانے کے لئے اسے اقتصادی لحاظ سے بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ اقتصادی راہداری کا منصوبہ اسی جانب ایک اہم قدم ہے میاں نواز شریف نے کہا میں پوری دیانت داری سے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کے ثمرات پاکستان کے ہر علاقے کے لوگوں تک پہنچیں گے، مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایٹمی دھماکہ کرنے کا شرف عطا فرمایا اور انشاء اللہ معاشی دھماکہ کرنے کا اعزاز بھی ہماری حکومت کو حاصل ہوگا۔
یوم تکبیر کے حوالے سے میاں نواز شریف کے یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہی نہیں پوری قوم کی آواز ہیں عوام ذرا اپنے ذہن کو اس جرأت آمیز اور ولولہ انگیز لمحہ کی طرف لے جائیں جب یہ ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا پوری قوم کے دل خود اعتمادی، حوصلوں اور مسرتوں کے جذبات سے لبریز تھے خاص کر اس تاثر کے ساتھ کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے اپنی دفاعی برتری کی دھاک بٹھانے کی کوششیں کی تھی ہم نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کی دھاک کو خاک میںملا دیا تھا۔