اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) دولتِ اسلامیہ کے پاکستان اور افغانستان میں باضابطہ قیام کا اعلان تو جنوری میں ہوا تھا مگر اس کی اب تک کی سرگرمیوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان میں زیادہ متحرک ہے۔ کئی مقامات سے دولتِ اسلامیہ اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپوں کی بھی خبریں ہیں لیکن پاکستان میں عراق اور شام سے اُبھرنے والی یہ تنظیم ابھی زمین پر عملی طور پر کچھ زیادہ متحرک نہیں ہو پائی۔ البتہ انٹرنیٹ پر پاکستانی طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان بیانات کی حد تک جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دونوں شدت پسند تنظیموں کی ویب سائٹوں پر ایک دوسرے کے خلاف تفصیلی بیانات شائع کئے گئے ہیں جن میں ایک دوسرے کے رہنماؤں، سوچ اور نظریات کو کھل کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پشتو اور عربی میں وضاحت کی ہے۔ ان زبانوں کے انتخاب سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تنظیم پشتو اور عربی بولنے والوں کو قائل کرنا زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ یہ بیانات پاکستانی اردو میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا تاہم طالبان ویب سائٹوں پر موجود ہے۔ پشتو کے 91 صفحات پر مشتمل بیان میں دلائل کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چونکہ دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی شرعی طور پر خلیفہ نہیں لٰٰہذا ان کی بیعت نہ کرنا گناہ نہیں ہے۔ دوسری جانب دولت اسلامیہ بھی اپنی ویب سائٹوں پر پاکستانی طالبان پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ 27 مئی کو ’تحریکِ طالبان پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟‘ کے عنوان سے تجزیہ شائع کیا گیا ہے جس میں افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کے اس بیان کو بنیاد بنا کر، جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ صرف افغانستان تک محدود رہیں گے، پوچھا ہے کہ ایسے میں پاکستانی طالبان کہاں کھڑے ہوں گے جو انہیں اپنا امیر مانتے ہیں؟ تحریر میں قطر میں رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ملا محمد عمر نے عالمی برادری سے کیا گیا واضح وعدہ پورا کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ یہ سوال بھی کیا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان پر ان حالات میں واجب ہے کہ وہ ملا عمر کی جانب یک طرفہ بیعت کی وضاحت کریں۔ تحریک طالبان پاکستان کے سامنے اب صرف دو ہی راستے ہیں: ایک وہ ملامحمد عمر کو ہی اپنا امیر مانتے ہوئے ان کی اطاعت جاری رکھنے کا اعلان کر کے پاکستان میں کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کریں دوسرا یہ کہ ملا محمد عمر کی بیعت ختم کر کے ایسے امیر کی بیعت کر لیں جو بقول ان کے احکامات دینے کے ساتھ ساتھ ان کی مدد بھی کرے گا۔ افغان طالبان کے ایک رہنما نے ان کی تنظیم کو دولتِ اسلامیہ سے لاحق خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ہلمند میں شدید خطرہ تھا لیکن وہاں دولت اسلامیہ کے ایک رہنما ملا عبدالرؤف کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد یہ خطرہ ختم ہوگیا ہے۔ پاکستان کی حد تک عسکری مبصرین اور سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ فی الحال دولتِ اسلامیہ بھرتیوں اور تنظیمی امور میں مصروف ہے۔ اس نے کراچی میں اسماعیلیوں کی بس اور پشاور میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت جیسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، لیکن بظاہر پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے وہ کھل کر سامنے نہیں آ سکی۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ شیعہ مخالف جنداللہ دولتِ اسلامیہ کی اتحادی بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ لشکرِ جھنگوی جیسی فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیمیں بھی دولتِ اسلامیہ کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس کے کئی جنگجو شام سے ہو کر آئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک ایسے ملک میں جہاں شدت پسند تنظیموں کی کوئی کمی نہیں ایک اور کا اضافہ حکومت کے لئے مزید دردِ سر پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت جاری جامع کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسندوں کی کمر توڑ دی ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز کی حال میں ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسند ملک کے اندر کچھ زیادہ فعال سرگرمیاں نہیں کر پا رہے لیکن جیسے ہی اس دباؤ میں کمی آئی، ہو سکتا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور دولت اسلامیہ یہاں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہو جائیں۔ یہ باہمی اختلاف بظاہر پاکستان کے لئے مثبت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ طویل مدتی منظرنامے میں اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔