بجٹ کی سرخیاں

Jun 11, 2015

عالیہ شبیر

پاکستان کے کسی بھی وزیرخزانہ کیلئے بجٹ بنانا نہایت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ خاص کر جب ملک ملٹی مسائل کا شکا ر ہے۔ دہشت گردی کے ناسور نے قومی معیشت کو شدےد نقصان پہنچاےا ہے۔ کسی بھی ملک کیلئے پیسہ اکٹھاکرنے کے تین ذرائع ہوتے ہیں۔ نمبر ایک ٹیکس لگا کر روپیہ اکٹھا کیا جائے۔ نمبر دو، اندرون ملک یا بیرون ملک سے قرضہ لیا جائے یا نوٹ چھاپے جائیں۔ پاکستان میں چونکہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر وزیر خزانہ کو قرض لیکر یا نوٹ چھاپ کر باقی اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ تیسرا بجٹ ہے۔ حکومت کے مجموعی بیرونی اور اندورنی قرضوں میں ایک سال کے اندر تقریباََ 9.22ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن زرمبادلہ کے ذخائر صرف 340بلین ڈالر بڑھے ہیں دوسرے لفظوں میں ملک کا باقی قرضہ 5.82ارب ڈالر بڑھا ۔اس سال بھی بجٹ میں 283ارب روپیہ اندورنی قرضہ اور تقریباً 7ارب ڈالر بیرونی قرضہ لیکر حکومت اپنے اخراجات پورے کرے گی۔وزیرخزانہ نے آتے ہی گردشی قرضہ کا معاملہ طے کر لیا تھا لیکن بد قسمتی سے صرف ایک سال کے اندر اندر یہ پھر 272ارب تک جا پہنچا ہے گویا یہ معاملہIPP اور بجلی کی وزارت کے درمیان لین دین کا معاملہ ہے۔لیکن چونکہ IPPکے پاس غیر اداشدہ رقم کی وصولی کےلئے ریاست پاکستان کی گارنٹی ہے۔ اس لیے آخر کار یہ غیر اداشدہ رقم حکومت پاکستان کو ہی دینی ہوگی۔ چونکہ وزارت پانی وبجلی کو ہر سال بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ جس کوپورا کرنے کے لیے وزارت بجلی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ لہذا حکومت کو اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے ۔ کوئی بجٹ بھی ہر طبقہ کو مطمئن نہیں کر سکتا ایسے حالات میں جب پورے پاکستان میں آبادی کا صرف آدھا فیصد لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں ۔ پاکستان میں صرف 3700اشخاص ہیں جو کہ ایک کروڑ سے زیادہ انکم ٹیکس دیتے ہیں ۔ جب تک لوگ ٹیکس نہیں دیں گے ملکی ترقی میں بہتری نظر نہیں آسکتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ FBRکو ٹیکس دہندگان کے ساتھ سہولت کا ر کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ملک میں موجودہ perpetual assembly سکیم کے تحت کوئی شخص باہر سے کروڑوںاربوں کی T-T کسی بنک کے ذرےعہ منگوا کر اپنی ناجائز دولت کو Estemate کر سکتا ۔ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جب FBR کے لوگ امیر لوگوں کونوٹس بجھواتے ہیں کہ آپ نے کروڑوں اربوں کا مکان خریدا ہے یا کار خریدی ہے لیکن آپکی کی کوئی بھیdeclared آمدنی نہیں ہے۔تو وہ شخص فارن کرنسی کی T-Tکی کاپی دِکھا دیتا ہے۔جس کے بعد FBRوالے مزید کوئی چھان بین یا تفتیش نہیں کرسکتے ۔اس سکیم پر کچھ نہ کچھ Restrictionضرور ہونی چاہیے۔مثلاً ایک سال سے زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کی چھوٹ حق دار کو ہونی چاہیے یا اگر کسی نے کوئی فیکٹری بنانی ہو تو اُس کو بھی غیرمحدود چھوٹ دی جائے۔ ان دو کے علاوہ جتنی بھی T-Tآئیں اُن پر ایک فیصد adjustment tax ہونا چاہیے۔ ان دو بندشوں سے شاید وقتی طور پر زرمبادلہ کی کمی واقع ہو لیکن دور رس اس کے بہت مثبت اثرات بہتر محاصل کی وصولی کی شکل میں نظر آئیں گے۔وقتی طور پر زرمبادلہ کی کمی کو مارکیٹ سے ڈالر خرید کر پورا کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا ماضی میں ہوتا بھی آیا ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں برآمدات میں تقریباََ 5فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔حالانکہ TDAPکے چیئرمین نے پچھلے سال بڑے فخر سے اور یقین کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ وہ تین سال میں ایکسپورٹ کو دگنا کر دیں گے اس حساب سے اس سال ایکسپورٹ 33بلین ڈالر کے لگ بھگ ہونی چاہیے تھی ۔لیکن پچھلے سال کی 25بلین ڈالر کی ایکسپورٹ گِر کر تقریباً 23 یا 24 بلین ڈالر رہ گئی۔ وزیرخزانہ اور وزیر تجارت کو ایسے لوگوں سے ضرور پوچھ گچھ کرنی چاہئے جو کہ بغیر کسی حساب کتاب کے ایسے بیان داغتے ہیںجو حکومت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور حکومت کی راست بازی بھی مجروح ہوتی ہے ۔ وزیرخزانہ نے اعلان کیا ہے کہ 2050 تک پاکستان دُنیا کی بڑی معیشت بن جائے گی۔ جو کہ اس وقت 44.5 نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے وزیر منصوبہ بندی نے پچھلے سال اپریل میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا شمار 2025 تک 10بڑی معےشتوں میں ہو گا۔
صرف 7ماہ بعد اُن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فرمایا کہ 2047تک ہم 10ویں بڑی معیشت بن جائیں گے۔ ان بےانات پر کوئی پوچھنے والا نہےں جو کہ بظاہر ناممکن سی بات ہے ایسے بیانات سے جو کہ سچ پر مبنی نہ ہوں۔ ان پر صر ف وقتی واہ واہ ہی مل سکتی ہے، موجودہ حکومت وعدوں اور دعوں پر زےادہ انحصار کر رہی ہے جب کہ عملی پرفارمنس میں بہت پیچھے ہے، جس پر انھےں توجہ دینی چاہےے۔ ایک اور اہم بات ن لیگ کی حکومت کی ترجیحات ظاہری شوشہ بازی پر توجہ زےادہ ہے اور مسائل پر کم جن پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہےں کہ آئندہ بجٹ نہ صرف عوامی توقعات پر پورا اترے گا، بلکہ معیشت کی گاڑی بھی اپنے مستحکم سفر کا آغاز کرے گی۔

مزیدخبریں