ادارہ قومی تشخص کے صدر ڈاکٹر صد ف علی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نیا بجٹ بناتے وقت قائداعظم ؒ کی ہدایت کی روشنی میں تمام بر سر اقتدار طبقہ سے سا دگی اختیا ر کرنیکاحلف لیں۔یو م سا دگی کے مو قع پر ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اس حکمنامہ کے مطابق ملک کا پہلا بجٹ بنانے سے پہلے 21 مئی 1948 کو وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے تمام اعلیٰ افسران کا خصوصی اجلاس بلا کر ایک اہم دستاویز پر دستخط کرائے تھے ‘ جسے عہد نامہ سادگی کا نام دیا گیا تھا اس روز عہد کیا گیا تھا کہ آئندہ تمام ا علیٰ حکام اور عوامی نمائندے ہمیشہ ساختہ پاکستان اشیا استعما ل کرینگے اور صرف پاکستانی مصنو عات کی حوصلہ افزائی کرینگے۔ عوام کیلئے سادگی کا نمو نہ بنیں گے اسی اجلا س میں " بی پاکستان بائے پاکستان " کی اصطلاح معرض وجود میں آئی تھی‘ ڈاکٹر صدف علی نے مزید کہا ہے قا ئداعظم ؒ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ قومی مصنوعا ت کو تر جیح دینا ذہنی آزادی ‘ خود اعتمادی اور خود انحصاری کی علامت ہے مغربی لباس سادگی کی نفی کرتا ہے اسی لئے انہوں نے قیام پا کستان کے بعد مغربی لباس کو ہمیشہ کیلئے ترک کردیا تھا اور نیکٹائی کو اتار پھینکا تھا ۔ لیکن بد قسمتی سے انکے بعد آنیوالی تمام حکو متوں نے قا ئد کے فر مودات کو نظر انداز کرتے ہو ئے قر ضو ں کی معیشت پر انحصار شروع کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک عالمی بنک آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کا مقروض ہو کر اپنی خودداری تک کھو بیٹھا کسی حکومت نے یہ محسوس نہ کیا کہ یہ قر ضے بدنیتی سے ہمیں دیکر ہماری انا خو دداری اور قومی حیثیت کو خریدا جارہا ہے ‘ جسکے نتیجہ میں آج ہم انکے قرضوں کی قسطیں دینے کیلئے مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں‘ ہمارے قومی وسائل جن میں گیس‘ بجلی جیسے معاملات میں دخل اندازی بر داشت کر نی پڑ رہی ہے اور ہماری حکومتیں انکے اشارے پر مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ کر نے پر مجبور ہیں۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کو قرضو ں میں الجھا کر انکی ایٹمی حیثیت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ صدر ادارہ قومی تشخص ڈاکٹر صدف علی نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وزیر خزانہ کو بجٹ بنانے سے پہلے اس بات کا پابند بنائیں کہ سادگی کا درس صرف عوام ہی نہیں ‘اشرافیہ کو بھی پا بند کیا جائے تاکہ پاکستان کا نظریاتی اور ایٹمی تشخص بحال کیا جاسکے وزیر خزانہ چند روز قبل یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ملک کی پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اگر اب بھی حکومتی اراکین نے موج مستیاں تر ک نہ کیں تو خدا کے غضب سے بچنا بہت مشکل ہو گا اس لئے بہت سنجیدگی سے فیصلوں کا وقت آ گیا ہے ۔ انہوں نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے اپیل کی ہے کہ قومی غیر ت کو مد نظر رکھتے ہو ئے 21مئی 1948 والے اس عہدنامہ کو منظر عام پر لا کر تمام سر کاری اعلیٰ حکا م اور اراکین پارلیمنٹ سے بھی اس اہم دستاویزپر دستخط کر ائے جائیں کیونکہ 1948 کے مقابلے میں آج اس کی زیادہ ضرورت ہے ہم دوبارہ غلا می کی طرف جانے سے محفو ظ رہ سکیں ۔ سا دگی کی ایک مثال ملاحظہ فر ما ئیے ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا اس اجلاس میں قائداعظم بھی موجو د تھے ۔ اے ڈی سی گل حسین نے قائد اعظم ؒ سے پوچھا ، سر اجلا س میں چا ئے پیش کی جائیگی یا کافی ؟ قائداعظم ؒ نے چونک کر سر اٹھایااور فرما یا یہ لوگ گھروں سے چائے ، کافی پی کر نہیں آئے ۔اے ڈی سی گھبرا گیا۔ قائداعظم ؒ نے فر ما یا " جس و زیر نے چائے ، کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کے آئے یا پھر گھر واپس جا کر پیئے ۔ قو م کا پیسہ قوم کیلئے ہے ، وزیروں کا نہیں " اس وقت وزراءکی تعداد صرف دس تھی۔ وزیر اعظم پاکستان سے گزا رش ہے کہ وہ مو جو دہ ما لی بحرانوں کے ساتھ ساتھ بجلی بحران سے نکلنے کیلئے سر کاری دفاتر میں ائرکنڈیشنڈ کے استعمال پر پا بندی لگا دی جائے ، تبدیلی ہمیشہ اوپر سے نیچے آتی ہے ۔
ایک با ر پھر عہد نامہ سا دگی کی ضر ورت
Jun 11, 2015