روزہ جیسے انسان میں تقویٰ پیداکرتا ہے ایسے ہی حدودتقویٰ کا تعین بھی کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات کی روسے تقویٰ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مشقت میں ڈالنے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کانام ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم کسی مشقت کا اٹھانا ہووہاں وہ عبادت ہے اورجہاں کسی آسانی کو قبول کرنا ہو وہاں وہ عبادت ہے یعنی عبادت میں اپنے ذوق اوررجحان کو بھی حکم الٰہی کے تابع کرنا کمال تقویٰ ہے۔ روزہ کئی گوشوں سے اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔
لوگوں نے روزہ کے حوالے سے کئی چیزوں کو اپنا کر تعذیب نفس کا سامان کیا ہواتھا سحری نہ کھانا ، افطار میں بہت تاخیر کرنا، مسلسل روزے رکھنا، اسلام نے روزہ کے حوالے سے ان تمام چیزوں کی نفی کی۔ سحری کھانے کی ترغیب دی ، افطار میں بے جاتاخیر سے سختی سے روکا۔ صوم وصال (یعنی سحری افطاری کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے )سے منع کیا۔
مروی ہے کہ ایک صحابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ملاقات کے بعد واپس چلے گئے ۔اگلے سال پھر حاضر خدمت ہوئے توان کی شکل وصورت بدلی ہوئی تھی عرض کرنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں ، آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ عرض کرنے لگے میں وہی ہوں جوگزشتہ سال حاضر ہواتھا آپ نے فرمایا تمہاری ہیئت کس چیز نے بدل دی تم تو بڑے تندرست وخوبرو تھے عرض کرنے لگے یہاں سے واپس جانے کے بعد میںنے مسلسل روزے رکھے ہیں۔ توحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو نے اپنے آپ کو عذاب میں کیوں ڈالا‘‘(ابودائود)
گویا روزہ زوردے کر کہتا ہے کہ میرا مقصد نفس کشی نہیں بلکہ ضبط نفس ہے ۔اورتقویٰ کا یہ تصور کہ اپنے آپ کو جتنا مشقت میں ڈالتے جائے اتنا ہی تمہارا تزکیہ نفس ہوگا کلیۃ ً غلط ہے بلکہ جیسے حکم الٰہی کی فرمانبرداری میں مشقت اٹھانا تقویٰ ہے ایسے ہی اس کی دی ہوئی آسانیوں سے فائدہ اٹھا نا بھی عبادت ہے۔اپنے ذوق اورجذبات کو حکم الٰہی کے تابع کرنا ہی تقویٰ کی معرا ج ہے۔اس ماہ مبارک میں کوئی بھی عبادت کی جائے اللہ تعالیٰ اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سلسلہ بیان میں فرماتا :’’بندہ اس میں جو بھی نیکی کرکے قرب الٰہی کا طالب ہوگا وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں فرض اداکیا ہوگا جس نے اس مہینہ میں فرض اداکیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے غیر رمضان میں ستر فرض اداکیے‘‘۔(مشکوٰۃ ۔روح عبادت)