کالاباغ ڈیم۔حقیقت کیا ، فسانہ کیا ؟ (12)

Jun 11, 2016

ظفر محمود

تھل کینال کی تاریخ اور جنوبی پنجاب کے کسانوں کے ادھورے خواب

دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان جنوبی پنجاب میں ایک وسیع رقبہ قابلِ کاشت ہے ۔ بیسویں صدی کے وسط تک یہ علاقہ اپنے درمیان بہنے والے عظیم دریائے سندھ کے پانی سے مستفید نہیں ہوتا تھا ،کیونکہ جنوبی پنجاب میںکسانوںکیلئے آبپاشی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ برطانوی دورِ حکومت میں جب پنجاب کے اوپری حصے میں سندھ طاس کے معاون دریاﺅں سے نہریں نکالی گئیں تو اس علاقے کے لوگ فطری طور پر یہ توقع رکھتے تھے کہ اُنہیں بھی اپنی زمینیں سیراب کرنے کیلئے دریائے سندھ سے آبپاشی کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کیلئے یہ باعث ِحیرت ہو مگر دستاویزات سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان واقع اِس دوآبہ کے علاقے کو سیراب کرنے کیلئے دریائے سندھ سے ماڑی کے مقام پرایک دوامی نہر نکالنے کا تصور پہلے پہل حکومت ِپنجاب نے 1873 ءمیں پیش کیا، تاہم آئندہ 27 برس تک اِس بارے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔بعد ازاں دوآبہ کو سیراب کرنے کیلئے آبپاشی نظام تعمیر کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے اکتوبر 1901 ءمیں سندھ ساگر کالونائیزیشن ایکٹ پاس ہوا۔ اس ایکٹ کی رُو سے پنجاب کو یہ استحقاق حاصل ہوگیا کہ وُہ بھکر اور لیّہ میں 19لاکھ 32ہزار ایکڑ پر مشتمل شاملات اراضی کیلئے سندھ ساگر دوآب (جسے آجکل تھل دوآب کے نام سے جانا جاتا ہے) کو سیراب کرنے کیلئے ایک نہر نکال سکتا ہے۔ مگرزیریں علاقوں کی مخالفت اور مرکزی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے علاقے کے لوگ اِس نہر کی تعمیر کے منتظر ہی رہے، ایک اور نسل پروان چڑھ گئی لیکن سندھ ساگر کا یہ بنجر لیکن قابلِ کاشت علاقہ آبپاش ہونے سے محروم رہا۔ 18 برس اوربیت گئے تاہم اِس حوالے سے کوئی کام نہ ہوا۔
1919 ءمیں حکومتِ پنجاب نے دوآبہ کو آبپاش کرنے کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا ۔ اِس منصوبے کا مقصد 14 ہزار کیوسک بہاﺅ پر مشتمل نہر کے ذریعے 24 لاکھ 68 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا۔ تاہم ہندوستان کی مرکزی حکومت نے اِس منصوبے کوبھی مسترد کردیا۔اِسی اثناءمیں برطانوی حکومت نے سکّھر بیراج کا منصوبہ تیار کیا ۔ 1923 ءمیں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان نے اس منصوبے کی منظوری دی۔ دستاویزات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپریل 1923 ءمیں جنوبی پنجاب کیلئے پانی سے انکار کے خلاف حکومتِ پنجاب نے ہندوستان کی حکومت سے احتجاج کیا۔جنوبی پنجاب کیلئے پانی کی فراہمی سے مسلسل انکارکے باعث حکومتِ پنجاب نے 1924 ءمیں ایک ترمیمی منصوبہ تیار کیا جس میں درج ذیل تین متبادلات شامل تھے:
الف۔تھل کینال کا نسبتاًچھوٹا منصوبہ
ب ۔تھل کینال کا بڑا منصوبہ
ج۔پورے دوآبہ کیلئے آبپاشی کا منصوبہ
برطانوی حکومت نے رائے دی کہ اِس منصوبے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سکھر بیراج کے منصوبے کیلئے درکار پانی کا معاملہ پہلے طے کیا جائے ۔ بالآخر اکتوبر 1925 ءمیں حکومتِ پنجاب نے تھل کینال کا نسبتاً چھوٹا منصوبہ منظوری کیلئے ہندوستان کی حکومت کو ارسال کیا۔مجوزہ نہر کی گنجائش 6 ہزار 750 کیوسک تھی۔ لیکن ہندوستان کی حکومت نے سکھر بیراج کا منصوبہ فعّال ہونے تک تھل کینال کے چھوٹے منصوبے پربھی عدم رضامندی ظاہر کی اور اِسے منظوری کیلئے سیکرٹری آف سٹیٹ کو نہیں بھجوایا۔
آبپاشی کی غرض سے نہر کیلئے پانی کا حصہ مختص کرانے میں پنجاب کی حکومت کی ناکامی نے جنوبی پنجاب میں آباد کسانوں کی اجتماعی نفسیات پر گہرے نقوش مرتب کئے اوروہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ لاہور میں مقیم انتظامیہ برطانوی حکومت سے اُن کا کیس جیتنے کی اہل ہی نہیں ۔مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر اگست 1929 ءمیں سندھ ساگر کالونائزیشن ایکٹ منسوخ کر دیا گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب کی حکومت نے اس منصوبے کو کسی بھی مرحلے پر ترک نہیں کیا۔آخر کار 1935 ءکے اوائل میں اینڈرسن واٹر ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے پنجاب کی حکومت کو تھل کینال تعمیر کرنے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی یہ قدغن بھی لگا دی کہ اس نہر میں زیادہ سے زیادہ 6 ہزار کیوسک پانی چھوڑا جاسکتا ہے۔ مزید برآں کمیٹی کی جانب سے دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں تھل کینال میں اوسطاً پانی چھوڑنے کی حد 2 ہزار کیوسک، فروری اور مارچ میں 3 ہزار 600 کیوسک جبکہ نومبر میں 5 ہزار 600 کیوسک مقرر کر دی گئی ۔ آخرکار1947 ءمیں تھل کینال تعمیر کی گئی جس کا مقصد کندیاں۔خوشاب اور کندیاں۔شیرشاہ ریلوے لائنوں کے اردگرد واقع 16 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا۔
تھل کینال کو تعمیر ہونے میں 70 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ اس منصوبے کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ دریا کے بالائی علاقوں میں مقیم لوگ(Upper riparians) بھی پانی کی تقسیم کے حوالے سے محرومی کا شکوہ کرنے میں اپنے آپکو حق بجانب محسوس کرتے ہیں۔سندھ میںرائے عامہ کا ایک بڑا حصہ اِس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پنجاب صوبہ سندھ کا اعتماد کھو چکا ہے کیونکہ چشمہ۔جہلم لنک کینال اور گریٹر تھل کینال پی سی۔ ون منظور کرائے بغیر تعمیر کی گئیں اور اِن منصوبوں کیلئے مختص پانی کو 1991ءکے پانی کی تقسیم کے معاہدے کی (Annexes) میں شامل کرایا گیا ، حالانکہ اِس معاہدے پر دستخط کے وقت گریٹر تھل کینال تعمیر ہی نہیں ہوئی تھی۔بعض اوقات تصورات ،حقائق سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اِسی بات کے پیشِ نظر درج ذیل سطور میں اوپر بیان کئے گئے تصورات سے متعلق حقیقی صورتِحال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چشمہ جہلم لنک کینال سندھ طاس متبادل منصوبوں (Indus Basin Replacement Works) کا حصہ تھی اور اسی وجہ سے یہ منصوبہ اُس وقت کے منصوبہ بندی کمیشن کے دائرہ¿ اختیار میں شامل نہیں تھا۔ اِسکی وجہ یہ تھی کہ عالمی بنک کے نمائندوں، فنڈز فراہم کرنیوالے ممالک اور واپڈا پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو سندھ طاس متبادل منصوبوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔یہ بات درست ہے کہ منصوبہ بندی سے متعلق چشمہ جہلم لنک کینال کی دستاویز آجکل کے پی سی ۔ون کی طرح نہیں تھی، لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سندھ طاس کے دیگر تمام متبادل منصوبوں جن میں 5بیراج اور 8بین الدریائی نہریں (Link Canals) شامل ہیں اُنکی تعمیر کیلئے بھی اسی نوعیت کی منصوبہ بندی دستاویزات استعمال کی گئی تھیں۔ چشمہ جہلم لنک کینال جون 1971 ءمیں مکمل ہوئی۔ غلط تاثر قائم کرنے کیلئے کسی ایک منصوبے کا بطورِ خاص تذکرہ اور اِس بات پر اصرار کہ صرف چشمہ جہلم لنک کینال ہی پی سی۔ون کے بغیر تعمیر کی گئی، کسی طور مناسب نہیں بلکہ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
یہ درست ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کے فعال ہونے پر سندھ نے اس نہر کے آپریشن پر جولائی 1972 ءمیں اعتراضات اُٹھائے اور اُس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ پانی کی تقسیم کے کسی معاہدے کی عدم موجودگی میں نہر میں پانی چھوڑے جانے کے وقت سے متعلق اختلافِ رائے کو حل کرنے کیلئے طریقہ¿ کار کا انتخاب ایک مشکل کام تھا۔ بہرحال اِس حوالے سے پنجاب اور سندھ کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا جس پر گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر، وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو اور حکومتِ پاکستان کے وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے اہم خدوخال یہ ہیں:
٭ اِس بات کی نشاندہی کئے بغیر کہ چشمہ جہلم لنک کینال کیلئے پانی کی متعیّن مقدار کیا ہوگی، رابطہ نہر کے زیریں حصے کو رواں دواں رکھنے کیلئے نہر میں پانی چھوڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔٭ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نہر میں عارضی بنیاد پر پانی چھوڑا جائیگا اور اِس بات کو مستقبل میں پانی کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنایا جاسکے گا۔٭دریائے سندھ میں پانی کے بہاﺅ کی بدلتی ہوئی صورتِحال کے پیشِ نظر وزیراعلیٰ سندھ کی درخواست پر واپڈا نہر میں پانی چھوڑنا بند کر دیگا۔
یہ عبوری معاہدہ اُس وقت تک مو¿ثر بہ عمل تھا، جب تک صدرِ پاکستان سندھ طاس کے پانی کی تقسیم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کرلیں۔ دو سال کے بعد جون 1974 ءمیں متعلقہ حکومتوں نے اِس عبوری معاہدے کو مزیدجاری رکھنے کی اجازت دی جبکہ 1974ءکے بعد چشمہ جہلم لنک کینال کا آپریشن کسی مخصوص معاہدے کے بغیر ہی جاری رہا۔
گریٹر تھل کینال کے بارے میں سندھ کے اندر یہ گہرا تاثرپایا جاتا ہے کہ اس نہر کے ذریعے پنجاب جو پانی حاصل کرے گا، وہ پنجاب کیلئے مختص حصے کے علاوہ ہوگا۔ جبکہ ارسا کے ریکارڈ کے مطابق ایسا نہیں ہے ۔
یہ الزام بھی بلاجواز دکھائی دیتا ہے کہ گریٹر تھل کینال کیلئے پانی کا حصہ چوری چُھپے 1991 ءکے معاہدے میں شامل کر دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 21 مارچ 1991 ءمیں پانی کا معاہدہ طے پانے کے بعد ہی صوبوں نے اپنے اپنے حصوں کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ چنانچہ تمام صوبوں نے 30 مارچ 1991 ءتک پانی کی ضرورت کے بارے میں بتایا۔ اِرسا کا غیرمتنازعہ ریکارڈ اِس بات کا شاہد ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ اپنے حصے کے مطابق ہی پانی استعمال کیا ہے، پھر بھی نجانے کیوں چشمہ جہلم لنک کینال اور گریٹر تھل کینال کے آپریشن کو پنجاب کی سینہ زوری کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مزیدخبریں