کمبوڈین کار مکینک نے سچی لگن اور محنت سے منزل پا لی یوٹیوب پر نقل کر کے چھوٹے چھوٹے پرزوں سے طیارہ بنا ڈالا

لندن (بی بی سی ڈاٹ کام) ویڈیو شیئرنگ سائٹ یوٹیوب پر راتیں گزرتی رہیں، ہوا میں قلابازیاں کھانے والے طیارہ بنانے کا خواب پنپتا رہا اور پھر ایک دن انھوں نے چھوٹے چھوٹے پرزے جوڑ کر طیارہ بنا لیا۔ یہ کہانی کمبوڈیا کے کار مکینک، پین لونگ کی ہے۔ وہ بچپن سے ہی طیاروں میں بے انتہا دلچسپی رکھتے ہیں۔پین لونگ تین سال تک اپنی بیوی کے سو جانے کے بعد گھنٹوں جاگتے رہتے تھے۔ وہ گھنٹوں یو ٹیوب ویڈیو دیکھتے رہتے تھے لیکن یہ کوئی پاپ موسیقی یا وائرل ویڈیو کلپس نہیں ہوتے تھے۔ یو ٹیوب میں کی ورڈ طیاروں کی پرواز اور لینڈ کرنے کی ویڈیوز تک لے جاتا۔ پین لونگ نے اپنے طیارے کی کئی حصوں میں پرانی چیزیں استعمال کی ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ چھ سال کی عمر میں انھوں نے ہیلی کاپٹر دیکھا اور اسی وقت سے ہی پرواز کی چاہت ان کے دل و دماغ پر چھا گئی۔ دہائیوں تک وہ اڑنے کے بارے میں سوچتے رہے۔مجھے ہر رات طیارے میں پرواز کرنے کے خواب آتے۔ میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ میرے پاس میرا اپنا ہوائی جہاز ہو۔ پہلے یہ صرف ایک خواب تھا۔ لونگ کی تعلیم درمیان میں ہی چھوٹ گئی اور وہ ایک مکینک بن گئے۔ میں نے ہوائی جہاز بنانا شروع کیا تو چھپ کر یہ کام کرتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کوئی دیکھے گا تو میرا مذاق اڑائے گا۔ لونگ کا خیال تھا کہ ہیلی کاپٹر کی نقل کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے انھوں نے ہوائی جہاز بنانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے جاپانی لڑاکا طیارے کو اپنا ماڈل بنایا۔ تین لوگوں کی مدد سے ہوائی جہاز کو 'رن وے' پر لایا گیا۔ رن وے کی یہ کچی سڑک راستے سے چاول کے کھیتوں میں جاتی ہے۔ گاو¿ں والوں کے مطابق 200-300 لوگ ان کی پرواز کو دیکھنے جمع ہوئے تھے۔ لیکن لونگ کے مطابق یہ تعداد تقریباً دو ہزار تھی۔ لونگ کہتے ہیں کہ طیارہ 50 میٹر کی بلندی تک گیا اور زمین پر آ گرا۔ پین لونگ اب سی پلین یعنی سمندر پر اڑنے والا تیارہ بنا رہے ہیں تاکہ بہت سے خطرات سے محفوظ رہیں۔ اب وہ پانی سے پرواز کرنے والا طیارہ بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ لونگ پر امید ہیں کہ اس بار وہ طیارے کو پرواز کے قابل بنا ہی دیں گے۔ لوے کہتے ہیں کہ پہلے ماڈل پر تقریبا دس ہزار ڈالر خرچ ہوئے تھے اور اپنے سمندری طیارے پر وہ اب تک تین ہزار ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ کمبوڈیا جیسے ملک کے لیے یہ بڑی رقم ہے جہاں اوسطاً تنخواہ 153 ڈالر فی ماہ ہے۔ یہاں 13.5 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...