لیلة القدر کا مسافر ’آبروئے صحافت مجید نظامیؒ

Jun 11, 2018

ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل رات کی عظمت و برکات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اس رات میں جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں بڑی تعداد میں فرشتے بھی نازل ہو کر اللہ کی عظمت و برتری کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ پاک کے انعامات کو اللہ کی یاد میں سربسجود لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیلة القدر کا دن اہل اسلام کیلئے بڑا برکتوں بھرا دن ہے۔ اگر اس دن کی نعمتوں اور رحمتوں کا شمار کی جائے تو یہ ہمارے احاطہ شعور سے باہر ہے۔ دو سو سال کی انگریزوں کی غلامی کے بعد مسلمانان برصغیر کو اپنی طویل آزادی کی جدوجہد کا ثمر بھی اسی شب ملا اور اسی شب جب اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا نزول ہو رہا تھا‘ کوچہ آزادی صحافت کے علمبردار، آبروئے صحافت مجید نظامی کو بھی اپنے رب کی طرف سے بلاوا آیا اور پھر انکی روح رحمتوں کے نزول کی بارش کے دوران جہان فانی سے کوچ کر گئی۔
جناب مجید نظامی نے اوائل عمر میں پاکستان بنتے دیکھا۔ مسلمانان پاک و ہند کی جدوجہد دیکھی۔ قائداعظمؒ کے عزم واستقلال اور انتھک جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کا قیام آپ کی چشم کشا میں تا دم آخر محفوظ رہا۔ آپکے اذہان میں ہمیشہ وہی جذبہ کارفرما رہا جو قائد کے جھنڈے تلے ایک سچے، کھرے سپاہی کا ہوتا ہے اور پھر یہ سچا کھرا سپاہی بے نیام تلوار کی طرح کوچہ صحافت کا مسافر بن گیا۔ آپ کے ذہن رسا میں کوئی امر مخفی نہ تھا۔ جب وطن دشمنوں نے مسلم لیگ کو تقسیم کرنے کی سازش کی اور پھر شہید ملت کے بعد رجائیت کا دور شروع ہوا تو یونینسٹ لیڈر جو مسلم لیگ میں شامل ہو کر نفاق کا باعث بنے تھے، انکی ریشہ دوانیاں دیکھیں اور پھر فوجی آمر ایوب خان کا دور حکومت آیا۔ اس دوران جناب حمید نظامی کی رحلت کے بعد آپکے کندھوں پر صحافت کی علمبرداری کا سارا بوجھ آ گیا جو آپ نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور آخری دم تک پاکستان کے اس فلسفے پر قائم رہے جو آپ نے اپنی اوائل عمری میں قائد کے عزم واستقلال میں دیکھا تھا۔
مجید نظامیؒ نہ صرف عزم واستقلال، محبت اور شجاعت کے پیکر تھے۔ دوسروں کیلئے ایثار و محبت رکھتے اور اپنے قلمرو سپاہیوں کیلئے راہبری، راہنمائی اور سرپرستی کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ حاکموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اور چھوٹوں سے شفقت آمیز سلوک آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ میری ان سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں لیکن حسرت ہی رہی کہ سلام میں پہل کبھی نہ کر سکا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں انکی آخری سالگرہ کے دوران انہیں دوسروں سے انتہائی مصروف دیکھ کر یقین تھا کہ آج میں سلام میں پہل کروں گا مگر میرے قریب پہنچنے سے قبل ہی انھوں نے ہاتھ پیشانی کے قریب لاتے ہوئے اشارے سے سلام کر دیا۔ انکی پر شفقت اور محبت بھری انہی عنایتوں سے ایک عالم ان سے محبت کرتا تھا۔ وطن کی محبت سے ان کا دل دھڑکتا تھا۔ شہ رگ پاکستان کشمیر کی آزادی کی جدوجہد ان کی زندگی کا محور تھی۔
کالا باغ ڈیم سمیت ہر وہ ایشو جس میں پاک وطن کی سربلندی اور عظمت نظر آتی تھی، کےلئے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں صحافت کی آبرو برقرار رکھی اور ہر آزمائش کا سامنا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ہم نشینی اور تعلقات کے باوجود صحافت کا علم اونچا کئے رکھا اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ ایک اشارے پر اشتہارات کی بارش ہو سکتی تھی لیکن وطن کے قومی دھارے کو دوسری طرف لے جانا گوارا نہ کیا۔ ضیاءمارشل لاءکے دور میں کلمہ حق کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور جب ضیاءالحق کے خصوصی بلاوے پر گئے تو متانت بھری خاموشی سے درس سننے کے بعد سوال کرنے کا اصرار ہوا تو صرف ایک سوال کیا، " آپ ہماری جان کب چھوڑیں گے"۔بھارت کی کشمیر میں مسلم کش پالیسی ہو یا پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی، لسانی و صوبائیت پرستی کی وباءہو یا فرقہ واریت، کے خلاف آپ کے اخبار نوائے وقت نے ہمیشہ ہراول دستے کا کام کیا۔ پیشہ ورانہ صحافت کے پیچ وخم سے بخوبی واقف تھے مگر کبھی قومی امور پر سمجھوتہ نہ کیا اور نہ ہی کبھی امن کی آشا کا خود ساختہ علم اٹھایا۔ دو قومی نظریہ کو پاکستان کی بنیاد سمجھتے تھے۔ آپکے قلم کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز اور دشمنوں کیلئے زہر ہلاہل تھی۔ افواہوں کے دھول میں جب ہر ذہن متاثر ہوتا تو دو قومی نظریہ پر ایمان رکھنے والوں کی نظریں نوائے وقت کی شہ سرخیوں کا ہی احاطہ کرتی تھیں جس سے انہیں مہمیز ملتی۔ جناب مجید نظامیؒ مسلم لیگ کی تقسیم کو پاکستان کےخلاف سازش سمجھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان سے محبت کرنےوالے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوں یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ مسلم لیگوں کے ادغام کی بات کرتے تھے۔ لیکن لیڈروں کے ذاتی مفادات نے کبھی مسلم لیگ کو اکھٹا نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا نظریہ رکھنے والے تقسیم در تقسیم ہو گئے۔ پاکستان کی سیاسی انارکی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
افراتفری کے اس دور میں جب عالمی سامراجی استعماری قوتیں بڑی شدت کے ساتھ ایک بار پھر عالم اسلام کوغلامی کی زنجیریں پہنانے میںکی مذموم سازشوں پر عمل پیرا ہیں۔ مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے سے لڑا کر ایک طرف انہیں کمزور بنایا جا رہا ہے دوسری طرف اپنا اربوں نہیں کھربوں ڈالر کا اسلحہ مسلم ممالک کے پرامن شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کیلئے انہیں ہی فروخت کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ارد گرد مسلم ممالک کا جائزہ تو لیں۔ جو مسلم ممالک صرف دو عشروں
پہلے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے آگے جا رہے تھے۔ آج کھنڈرات کا ڈھیر نظر آتے ہیں۔ شام، عراق، لیبیا اور یمن کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اردن مفلوج اور لبنان پہلے ہی تباہ ہو چکا تھا۔ ایران پر پابندیوں کے ذریعے اسکی معاشی ترقی کو صفر بنا دیا گیا۔ مصر میں بڑھتے ہوئے اسلامی رجحان اور اسکے نتیجہ میں بننے والی اسلامی حکومت کو اپنے گماشتوں جنرلوں کے ذریعے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ ترکی میں بھی اسلام پسند فلاحی ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش کی گئی۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوریاں پیدا کرکے نفاق کا نیا بیج بویا جا رہا ہے۔ پاکستان کی مضبوط عسکری ایٹمی طاقت سے نبٹنے کیلئے سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ ایک ایسی جنگ مسلط کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں تباہی اور بربادی ہی مقدر بنے گی۔ لیکن مفادات کی سیاست کرنیوالے سیاستدانوں کو اسکی کوئی فکر نہیں۔ افسوس! کوچہ صحافت میں نام رکھنے والے دانشور بھی اپنی دانشوری کو بالائے طاق رکھ کر ٹکڑیوں میں بٹے سیاستدانوں کی چاپلوسی یا کردار کشی میں مصروف ہیں۔ دوسرے درجے کے دانشور جو سوشل میڈیا کا کھیل رچائے ہوئے ہیں۔ ان کے ٹوٹکے اور اشتہاریئے ملاحظہ کئے جائیں تو ہر طرف مایوسی کے اندھیرے نظر آتے ہیں کہ ہماری منزل کیا تھی اور ہم کہاں جا رہے ہیں؟
لیلة القدر کی نیک ساعتیں گزر رہی ہیں۔ ہمیں اپنے رب سے اپنے گناہوں اور بداعمالیوںکی معافی مانگی چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کہ اسکے راستے پر چلیں گے۔ یاد رکھیں! اللہ نے ہمیں اتفاق اور اتحاد کا درس دیا ہے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد یں پاک وہند تک محدود نہ تھیں بلکہ یہ ایک آفاقی فکر ہے۔ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور یہی فلسفہ دوقومی نظریہ کی بنیاد بھی تھا۔ اللہ ہمیں راستی پر چلنے اور لیلة القدر کے مسافر مجید نظامیؒ کی پیروی کی توفیق دے۔ آمین!

مزیدخبریں