قافلہ شوق ”نوائے وقت“ آن ٹھہرا ہے

کبھی صحافت ایک مشن اور آدرش تھی۔ اب تجارت اور پیشہ بن گئی ہے۔ تجارت میں ہر دم صرف نفع پر نظر رہتی ہے۔ لفظ ”پیشے“ کے کچھ اور بھی لوازمات بیان کئے جاتے ہیں۔ انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو، والے استاد امانت علی خاں نے لاہور کے مرحوم ٹی ہاﺅس، میں قتیل شفائی کو تلّے کی کڑھائی والا خاصا شوخ سا کھسہ پہنے دیکھا تو کہے بغیر نہ رہ سکے۔ ”سرکار! کیا آپ نے اپنے ان پاﺅں کو پیشے بٹھا رکھا ہے؟“ اب کیا ان اخبارات کے نام لینا بھی ضروری ہیں جن میں شوخ بھڑکیلے تصویری مواد کی مقدار خبروں سے قدرے سے زیادہ ہو۔ یہ اخبارات پڑھنے کی بجائے دیکھنے کی چیز دکھائی دیتے ہیں۔ ”نوائے وقت“ اخبار ایک مشن کے طور پر قرارداد پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوااور ابھی تک اپنے اس مشن کو بھولا نہیں۔ 
آپ ”نوائے وقت“ کی پیشانی پر ایک مختلف سی تحریر دیکھیں گے۔ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والی بات، یہ بات یونہی نہیں لکھ چھوڑی گئی۔ اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔” نوائے وقت“ کے بانی حمید نظامی کی جواں موت نے مجید نظامی کو لندن چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ ان دنوں وہاں قانون کے طالب علم تھے۔ اب ”نوائے وقت“ کی ادارت جواں سال مجید نظامی کے کندھوں پر تھی۔ یہ صدر ایوب کے مارشل لاءکا دور تھا۔ ایوب خان کی پہلی مڈبھیڑ اسی مجید نظامی سے ہوئی۔ مدیران جرائد کے ساتھ ایک رسمی ملاقات میں ایوب خاں کہنے لگے: ”آپکو شرم آنی چاہئے۔ آپ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں“ ۔ اس پر مجید نظامی اپنے پورے قد سے کھڑے ہوئے اور بولے: ”حضور! شرم کس بات کی۔ میں جب بھی اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں، میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ پھر دوستو! جنرل یحییٰ خاں کا عہد آتا ہے۔ اسی زمانہ میں پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ اسی عہد میں جناب مجید نظامی نے ایک بھری محفل میں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں کو باور کرایا کہ ”مارشل لاءنہ تو لاءہے ۔اور مارشل لاءکورٹ نہ ہی کوئی کورٹ“ ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے واقعات بھلا کہاں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے عہد میں اک عجب تماشا ہوا۔ ایک مرتبہ ”نوائے وقت“ جنرل ضیاءالحق کا گروپ انٹر ویو مانگا تو انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ مجید نظامی خود تشریف لائیں۔ شرط پوری کر دی گئی۔ انٹرویو ہوتا رہا۔ اچانک ضیاءالحق مجید نظامی سے کہنے لگے: ”آپ نے تو کوئی سوال پوچھا ہی نہیں“۔ اس پر مجید نظامی بولے کہ ”یہ شرط تو نہیں تھی کہ میں بھی کوئی سوال ضرور پوچھوں گا“۔ جنرل ضیاءالحق ضد کر بیٹھے کہ نہیں! آپ بھی کوئی سوال ضرور کیجئے۔ اس پر مجید نظامی نے بڑی سادگی اور بھولپن سے پوچھا: ”ساڈی جان کدوں چھڈو گے“؟ واہ! پھر کیا ہونا تھا۔ بس ایک سکوت مرگ سا طاری ہو گیا۔ شاہی ہار گئی۔ درویشی جیت گئی۔
مجید نظامی کا کلمہ حق کچھ فوجی حکمرانوں کیلئے ہی خاص نہیں رہا۔ ”بھاری مینڈیٹ“ والوں کا عہد تھا۔ ایٹمی دھماکہ کے سلسلہ میں بلائی گئی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں انہوں نے نواز شریف کو بڑے دھڑلے سے کہہ دیا تھا کہ ”اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے“۔ اور پھر پاکستان دنیا کی چھٹی اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ اس مرحلے پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ ”نوائے وقت“ کو کبھی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ذکر سے خالی نہیں دیکھیں گے۔ نائن الیون کے بعد صدر پرویز مشرف نے قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کو بریفنگ کیلئے بلایا۔ مجید نظامی نے اس موقعہ پر انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ آپ نے” بُش“ نہیں ”پاﺅل“ کی ایک ٹیلی فون کال پر سرانڈر کر دیا ہے۔ بات بڑی تلخ تھی۔ اپنا غصہ دباتے ہوئے صدر پرویز مشرف مجید نظامی سے پوچھنے لگے۔ ”اگر اس موقعہ پر آپ ہوتے تو آپ کیا کرتے“؟ اس پر مجید نظامی نے جواب دیا: ”میں کیوں ہوتا؟ میں تو اپنا کام کر رہا ہوں۔ اگر آپ بھی اپنا کام کر رہے ہوتے تو آپ کو یہ مشکل پیش نہ آتی۔ سیاستدانوں کا کام سیاستدان ہی جانیں۔ جس کا کام اسی کو ساجے“۔
میں یہاں انگریزی زبان کا لفظ ”کریڈایبلٹی“ ہی استعمال کرونگا۔ ”نوائے وقت“ اخبار کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر کریڈایبلٹی کی حامل ہے۔ یہ اہمیت حکمرانوں کے ہاں بھی ہے اور عوام کے درمیان بھی۔ کبھی وقت تھا کہ ایک اخبار میں کسی کے مرنے کی جھوٹی خبر چھپی۔ اس بیچارے نے یہ خبر پڑھی اور اخبار کی کریڈایبلٹی پر یقین کرتے ہوئے سچ مچ مر گیا۔ اب تو ”اخباری خبر“ کے لغوی معنی ہی جھوٹی خبر کے ہو گئے ہیں۔ پھر بھی کئی اخباروں اور کئی اخباری شخصیتوں کی کریڈایبلٹی اب بھی قائم اور دائم ہے۔ کسی ”شبھ گھڑی“ مدیر ”نوائے وقت“ مجید نظامی نے آصف علی زرداری کو ”مرد حُر“ کا خطاب دے ڈالا۔ پوری پیپلز پارٹی آج تک اس خطاب کو بڑے فخر سے گلے میں لٹکائے پھر رہی ہے۔ بیان کیا قراة العین حیدر نے۔ وہ ایک مرتبہ دلّی کے مشہور آرٹسٹ فیروز کے نگار خانہ میں گئیں۔ استاد فیروز مغل بادشاہ جہانگیر کے مصور استاد منصور کی اولاد میں سے تھے۔ قراة العین حیدر نے استاد فیروز سے پوچھا کہ آپ یہاں کتنے اطمینان سے یہ تصویریں بنا رہے ہیںجبکہ باہر کلچر کا مطلب ہی بدل گیا ہے۔ استاد فیروز نے نہایت دلجمعی سے کہا: ” وہ اپنا کام کریں، ہم اپنا کام کریں گے“۔ میں سوچتا ہوں کہ ”پاکستان کھپے، پاکستان نہ کھپے“ کے شور و غوغا میں یہ جواں سال بوڑھا، بہادر اخبار نویس کیا یکسوئی سے اپنے کام میں مگن ہے۔ نظریہ پاکستان کی آبیاری کا کام۔ اس باہمت شخص کے قلب کے تین آپریشن ہو ئے۔ لگ بھگ ایک صدی پیشتر مصحفی نے شاید انہی کیلئے کہا تھا: 
مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم 
پر تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا
٭ قند مکرر

ای پیپر دی نیشن