جمعیت علما ء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ باکمال شخصیت ہیں جن کی بیک وقت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ’’دوستی‘‘ قائم دائم ہے دوستی بھی ایسی کہ جو ’’ضرب المثل‘‘ ۔ بیک وقت دونوں سے ’’ دوستی‘‘ نبھانا خاصا مشکل امر ہے سیاست دان کی سیاست دان سے سیاسی مفاد پر مبنی دوستی ہوتی ہے سیاسی مفاد ختم ہو جائے دوستی بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ جب جمعیت علما ء اسلام (ف) پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ تھی تو جہاں مولانا فضل الرحمنٰ نے آصف علی زرداری سے دوستی کا حق ادا کیا وہاں اپنی پارٹی کو بھی بے پناہ سیاسی فوائد دلوائے جس کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی جاتی رہی ۔ نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو نواز شریف نے اپنی سیاسی ضروریات کے پیش نظر مولانا فضل الرحمنٰ کو اپنے سینے سے لگا لیا مولانا فضل الرحمنٰ بھی ’’گھاٹے ‘‘ کی دوستی نہیں کرتے انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو وزارتیں اور مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ دلوائیں ۔ اگر کسی سے سیاسی دوستی کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر ’’سیاسی فوائد ‘‘ ہوتے ہیں مولانا فضل الرحمنٰ دوبار پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ان کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر تنقید کی گئی لیکن انہوں نے تنقید کی پروا کئے بغیر کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے کام ترک نہیں کیا وہ پچھلے 10سال سے کشمیر کمیٹی کو ’’باختیار ‘‘بنانے کی جنگ لڑتے رہے ۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ حکومت کشمیر کمیٹی کی بنائی پالیسی کو ’’فالو‘‘ کرے لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی ۔ مولانا فضل الرحمنٰ ایسے نواز شریف حکومت کا حصہ بنے کہ ان کا مشکل وقت بھی ساتھ نہ چھوڑا ۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان پائے جانے والے ’’فاصلوں ‘‘ کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے اس گلی سے بھی گذرنے سے گریز کیا جہاں نواز شریف کی موجودگی کا ذرا سا شائبہ بھی ہو۔ نواز شریف پر مشکل وقت میں بڑے بڑے’’ جغادری لیڈروں‘‘ نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن مولانا فضل الرحمنٰ اور محمود خان اچکزئی نے تو کمال کر دیا پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں میاں نواز شریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے مولانا فضل الرحمنٰ نے نواز شریف کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا کوئی اور ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کی جرات نہیں کر سکتا لیکن سیاسست کی مجبوریوں نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمنٰ کے راستے الگ کر دئیے۔ دلچسپ امر یہ ہے جمعیت علما ء اسلام (ف) نے فاٹا کی خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کی جب کہ ان کی اتحادی جماعت ، جماعت اسلامی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی پرجوش حامی تھی مختلف الخیال سیاسی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئی ہیں بہر حال مولانا فضل الرحمنٰ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی وجہ سے میاں نواز شریف سے ’’ناراض‘‘ ہو گئے ہیں انہوں نے کہا کہ’’ہم نے ہر مرحلہ پر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ہے لیکن جب ہمارا ساتھ دینے کا وقت آیا مسلم لیگ(ن) نے ہم سے بے وفائی کی ہے ‘‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے فاٹا کو مکمل طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی 31 ویں آئینی ترمیم کی دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ کے فیصلے کی توثیق کر د ی ہے ۔ صدر مملکت ممنون حسین کے آئینی ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے اس آئینی ترمیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مولانا فضل الرحمنٰ اور محمودخان اچکزئی تھے آئینی ترمیم کی منظوری کی راہ میں دو حکومتی اتحادی جماعتیں جمعیت علماء اسلام (ف)،پختونخوا ملی عوامی پارٹی رکاوٹ کا باعث بننے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کو موخر کرتی رہی بالآخر جب قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت نے بھی فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی حمایت کر دی تو اپوزیشن کی وہ جماعتیں جو اسٹیبلشمنٹ کی’’ منظور نظر‘‘ تصور کی جاتی ہیں بھاگتی دوڑتی پارلیمنٹ پہنچ گئیں اور آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ ڈالا، شیخ رشید احمد نے اعتراف کیا کہ وہ لال حویلی پہنچے ہی تھے تو پیغام آگیا کہ آپ کے پارلیمنٹ نہ آنے سے آئینی ترمیم نا منظور ہو سکتی ہے لہذا انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس کی جانب دوڑ لگا دی ۔ انہوں یہ نہیں بتایا کہ آئینی ترمیم کے لئے کون’’ بندے‘‘ پورے کر رہا تھا ؟ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی جو5سال میں صرف20 دن قومی اسمبلی آئے، آئینی ترمیم منظور کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لئے پہنچ گئے۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے برملا یہ بات کہی ہے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے انہوں نے اس بارے میں ایک امریکی سفارت کار سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات بھی بتائی ہیں بہر حال جمعیت علما اسلام (ف) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کو با آسانی آئینی ترمیم منظور نہیں کرنے دیا آئینی ترمیم کو پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اوراپوزیشن کی دیگرجماعتوں کی حمایت سے منظور کیا گیا ہے دلچسپ امر یہ ہے فاٹا کے جو ارکان آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے پیش پیش تھے جب آئینی ترمیم کی منظوری کا مرحلہ آیا تو ان کی اکثریت پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت غیر حاضر تھی 31ویں ترمیم کے تحت آئین سے فاٹا اور پاٹا کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں بلوچستان کے قبائلی علاقے بھی صوبہ بلوچستان میں شامل ہو جائیں گے۔ فاٹا کی12 نشستوں میں 6 کی کمی کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ جائیں گی۔ فاٹا کی 8 سینیٹ نشستیں ختم ہو جائیں گی جس پر سینیٹ کی 104 نشستیں کم ہو کر 96 رہ جائیں گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گی۔ 8آئینی شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اب خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 45ہو گئی ہیں ۔ اس طرح آئین کی شق 59 میں ترمیم سے فاٹا کی سینیٹ میں آئندہ 8نشستیں ختم کر دی جائیں گی قبائلی علاقوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں 16 جنرل خواتین کی 4 اور غیرمسلموں کیلئے ایک ہو گی۔ آئینی ترمیم میں لکھ دیا گیا ہے کہ ضم ہونے والے علاقوں کی 16 جنرل صوبائی نشستوں پر انتخابات 2018ء کے بعد ایک سال کے اندر ہونگے۔ آئین کی شق 155 میں ترمیم فاٹا اور شق 246 سے پاٹا کے الفاظ نکال دئیے گئے جبکہ بلوچستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے بھی صوبہ بلوچستان میں ضم کر دئیے گئے ہیں ۔ 31ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین سے شق 247 کو حذف کرتے ہوئے فاٹا کے بارے میں صدر اور گورنر کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں ۔’’ فاٹا او رپاٹا‘‘ کو صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ فاٹا کا کے پی کے میں انضمام مسلم لیگ(ن) کا بڑا فیصلہ ہے جس کے فاٹا کے سیاسی کلچر پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اس فیصلے سے ڈیڑھ سو سالہ پرانی ڈیورنڈ لائن کے تصور کو ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔ افغانستان نے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جسے پاکستان نے مسترد کر دیا ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا اصل منبع افغانستان ہے جہاں دہشت گردوں کی ’’پناہ گاہیں ‘‘ موجود ہیں پاکستان افغانستان کے احتجاج کے باوجود ڈیورنڈ لائن پر مختلف مقامات پر چیک پوسٹیں قائم کرکے باڑ لگا رہا ہے لنڈی کوتل میں پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر افغان شہریوں کی آمد پر پابندی سے دہشت گردوں کی پاکستان آمد میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے ۔ فاٹا کے ’’مین سٹریم‘‘ میں آنے سے جہاں اس علاقے کے ’’سیاسی کلچر‘‘ میں تبدیلی آئے گی وہاں اس علاقے کے ساتھ لفظ علاقہ ’’غیر ‘‘ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے جرائم پیشہ افراد پاکستان سے گاڑیاں چوری کر کے علاقہ غیر لے جاتے تھے اسی طرح جرائم پیشہ عناصر پاکستان میں جرائم کر کے علاقہ غیر میں’’ پناہ ‘‘لے لیتے تھے اب وہاں پر پاکستان کا قانون نافذ ہونے سے جرائم پیشہ اس طرف کا رخ نہیں کریں گے ۔ فاٹا میں سماجی انقلاب برپا ہو گا فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان جمعیت علما اسلام (ف) اور خیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو ہوا ہے دونوں جماعتیں ’’ سیاسی تنہائی ‘‘کا شکار ہوئی ہیں ۔ متحدہ مجلس عمل قائم ہو گئی ہے مولانا فضل الرحمنٰ نے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے منشور کا اعلان کر دیا ہے جس میں انہوں نے فاٹا کو ترقی دینے کے پروگرام کا ذکر کیا ہے اور قبائلی عوام کی محرومیاں دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے البتہ متحدہ مجلس عمل کا منشور فاٹا کے بارے میں بڑی حد تک ’’خاموش‘‘ ہے سر دست فاٹا سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں شامل ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا اس کے لئے ایک سال کی مدت رکھی گئی ہے ۔ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اس کا حکومت سازی میں کردار بڑھ جائے گا۔
٭٭٭٭٭