واشنگٹن(این این آئی)امریکی نیوز چینل نے مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی دوڑ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ قیود اور پابندیاں سعودی عرب کو دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہونے سے نہیں روک سکی۔میڈیارپورٹس کے مطابق رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بلند و بانگ دعوؤں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جو سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی ڈیل کے حوالے سے تھے۔ اس ڈیل کے بارے کہا جا رہا تھا کہ اس کی مالیت 110 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آخر کار "سعودی عرب کی جانب سے ہتھیاروں کی خرید درحقیقت نسبتا کم رہی"۔ گذشتہ برس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی تصدیق شدہ خریداری کی مالیت صرف 14 ارب ڈالر رہی۔امریکی ٹی وی نے مزید بتایا کہ اس کمی کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ نے گذشتہ ماہ کانگرس کو بائی پاس کرتے ہوئے ہنگامی حالت کا سہارا لیا تا کہ سعودی عرب ، امارات اور دیگر ممالک کو 8 ارب ڈالر مالیت کا خریدا گیا اسلحہ جلد منتقل کیا جا سکے۔ یہ اقدام خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سعودی عرب صرف امریکہ سے ہتھیار نہیں خرید رہا اور اس کی خریداری روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں ہے۔ جیوپولیٹیکل شورشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب واشنگٹن کے حریفوں کے ساتھ بھی ہتھیاروں کی خریداری کے سمجھوتے طے کر رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ٹی وی کے سامنے آنے والی خفیہ انٹیلی جنس معلومات جس پر کانگرس کا مطلع ہونا منع تھا اس کے مطابق سعودیوں نے حالیہ برسوں میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو توسیع دینے کے واسطے چین کا سہارا لیا۔چینل کے مطابق 1987 میں طے پانے والا سمجھوتہ ریاض کو ایسی امریکی ٹکنالوجی کی خریداری سے روکتا ہے جو وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی حامل ہو سکتی ہے۔ لہذا سعودی عرب نے بیجنگ کا رخ کیا۔ چین کے ساتھ مذکورہ خریداری کا حجم واضح نہیں تاہم یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مملکت خطے میں سب سے بہتر اسلحہ خانہ حاصل کرنے کے واسطے کوشاں ہے۔امریکی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب ابھی تک جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر روک لگانے کے معاہدے پر کاربند ہے۔دوسری جانب ریاض ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے تعاون سے اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے کھلا موقف رکھتا ہے۔ ایجنسی نے گذشتہ برس جولائی میں ایک ٹیم سعودی عرب بھیجی تھی جس کا مقصد اس حوالے سے تعمیراتی منصوبوں کے مقامات کا معائنہ کرنا تھا۔ سعودی عرب بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ یہ پروگرام پر امن ہے۔امریکی ٹی وی کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ سعودی عرب جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ہے تاہم وہ زیادہ وسیع سطح پر جوہری ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ ریاض کے مضافات میں ارجنٹائن کے تعاون سے ری ایکٹروں کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔سعودی عرب نے متعدد امریکی کمپنیوں سے جوہری ٹکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جن کے بارے میں انکشاف نہیں کیا گیا۔ مذکورہ کمپنیوں کو امریکی وزارت توانائی کی جانب سے سات پرمٹ جاری کیے گئے تھے۔ ان اجازت ناموں کو پرمٹس 810 کا نام دیا گیا اور ان کے سبب ڈیموکریٹس قانون سازوں کا غصہ بھڑک اٹھا۔ ڈیموکریٹس کو اس معاملے میں غیر معمولی رازداری پر اعتراض تھا۔