اسلام آباد (نیوز رپورٹر) شہباز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ متنازعہ انٹرویو دینے اور ڈیل کا غلط الزام لگانے پر چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے، جوڈیشل کمیشن میں ججز کے خلاف ریفرنس کا معاملہ پہلے اخبارات میں آیا اور پھر ججز کو پتہ چلا۔ جب ایک جج خود انصاف کا متلاشی ہوگا تو وہ دوسروں کو کیا انصاف دے گا۔ آصف علی زرداری، خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں، نیب اور پی ٹی آئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ چیئرمین نیب مستعفی ہوں ، پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ او آئی سی سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کشمیر کا تذکرہ نہ کرنا حکومت پاکستان کی ناکامی ہے۔ میری بیماری پر سیاست کرنے والوں کو اللہ لمبی اور تندرست زندگی دے۔ قومی اسمبلی میں خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ آصف زرداری ہر موقع پر نیب میں پیش ہوکر سوالات کا جواب دیتے رہے اور کبھی تاخیری حربے استعمال نہ کیے اور نیب اس کا اعتراف کرے ان کو گرفتاری کی ضرورت نہیں۔ عدالت عالیہ کا فیصلہ آگیا ہے اس لئے تمام اپوزیشن ارکان اور رہنمائوں کی طرف سے گزارش ہے زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے یہاں لایا جائے، اس سے پارلیمنٹ کا قد بڑھتا ہے، جمہوریت کو تقویت ملتی ہے۔ زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اپوزیشن سپیکر کی مشکور رہے گی۔ او آئی سی میںکشمیر اور فلسطین کی بات نہیں کی گئی مقبوضہ کشمیر میں معصوم بچوں کا خون بہہ رہا ہے ، نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری ہورہی ہے۔ پوری قوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کیلئے مضبوط آواز کے ساتھ مسائل کو اجاگر کرتی ہے مگر او آئی سی کے علامیہ میں کشمیر کا ذکر نہ تھا۔ پوری قوم سکتے میں ہے۔ پاکستان کی ناکامی ہے، اس حوالے سے کردار ادا کیا جائے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ چند دن قبل عمران خان نے عمر ایوب کو ٹوئٹ کیا تھا کہ مبارک ہو لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے، مسئلہ حل ہوگیا، یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ 31 مئی 2018 سے چند دن قبل پوری قوم کو حقیقت بتا دی تھی کہ نواز شریف کی قیادت میں 4 سال میں 11ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی اس کے ثمرات ہیں کہ شدید ترین موسم میں ان کی نالائقی اور نا اہلی کے باوجود لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ موجودہ حکومت نے سی پیک کے حوالے سے منفی بیانات دئیے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اس حوالے سے بی بی سی کو انٹرویو دیا تھا۔ سی پیک کے تحت 5 ہزار میگا واٹ کے منصوبے لگے۔ عمر ایوب کو غلط ٹویٹ دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان غلط بیانی سے گریز کریں ۔ فواد چوہدری جن کا عہدہ چھین لیا گیا وہ خاصے ڈپریشن میں چلے گئے ہیں۔ فواد چوہدری سائنس کی دنیا میں ڈنکا بجارہے ہیں، عید کے چاند کے حوالے سے انہوں نے کیمیائی نسخے نکال لئے۔ فواد چوہدری نے اس رپورٹ میں کہا تھا کہ ایل این جی کے منصوبوں میں گھپلے ہوئے ہیں، عید پر مسافروں کو ریلویز منزل پر پہنچانے میں ناکام رہی، لوگ خواجہ سعد رفیق کو یاد کررہے تھے۔ احتساب کے نام پر چیئرمین نیب فریق بن گئے۔ چیئرمین نیب نے جس ڈیل کی بات کی ہے اگر وہ ایک معمولی ثبوت بھی لے کر آئے تو میں مستعفی ہوکر اور معافی مانگ کر چلا جائوں گا ورنہ الزام تراشی پر چیئرمین نیب مستعفی ہوں اور قوم سے معافی مانگیں۔ آج نواز شریف جیل میں ہے، بیماروں پر سیاست نہ کی جائے، موت سب کو آنی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک ہو جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ علاج کے لئے گیا تو کہا گیا شوبازیاں کرتا ہے اس طرح کا مذاق کسی مہذب شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔ میری مرحومہ بھابی کی بیماری پر بھی سیاست کی گئی۔ ایوان میں بلاول بھٹو سے پہلے شیخ رشید کو مائیک دینے کے معاملہ پر پیپلز پارٹی، ڈپٹی سپیکر اور وزیر ریلوے اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئے، کوئی بھی ہار مانے کو تیار نہ تھا، پیپلز پارٹی نے سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر لیا ،گو نیازی گو اور شیدا ٹلی کے نعرے لگائے، کراچی کو پانی دو ، سندھ کو جینے دو کے جوابی نعرے، ایوان پندرہ منٹ تک مچھلی منڈی بنا رہا۔ ڈپٹی سپیکر کوشش کے باوجود حالات کنٹرول نہ کر سکے تو اجلاس آج منگل کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جب پیپلز پارٹی واک آئوٹ کے بعد دوبارہ ایوان میں آئی تو پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری بات کرنا چاہتے تھے تاہم ڈپٹی سپیکر اس دوران ذاتی وضاحت کے لئے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو ایوان دے چکے تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ پہلے بلاول بھٹو خطاب کریں گے۔ تاہم ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ وہ شیخ رشید کو فلور دے چکے ہیں پہلے دو منٹ انہیں بات کرنے دیں تاہم پیپلز پارٹی کسی طور پر اس پر راضی نہ تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے شیخ رشید سے پہلے بلاول بھٹو کو بولنے کی اجازت نہ دی۔ ڈپٹی سپیکر انتہائی غصے میں آگئے اور کہا کہ کیا اس طرح اجلاس میں ہوتا ہے، کسی کا دبائو قبول نہیں کروں گا، آرام سے اپنی نشستوں پر جائیں ، پہلے وزیر ریلوے شیخ رشید کی تقریر ہوگی ، پھر بلاول بھٹو کو موقع ملے گا۔ مسلم لیگ ن کے ارکان آغاز میں خاموشی سے صورتحال کو دیکھتے رہے۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ بلاول بھٹو کا مائیک آن نہ ہونے پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان سپیکر ڈائس پر چڑھ گئے، ڈپٹی سپیکر سے تلخ کلامی ہوگئی اس دوران شیخ رشید نے اپنی تقریر جاری رکھی اور کہاکہ بلاول بھٹو منی لانڈرنگ پر تقریر کرنا چاہتے ہیں پہلے میری تقریر ہوگی، سارے چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے دفاع کیلئے تقاریر کی جارہی ہیں، اگر میں وزارت ریلوے میں خسارے کو ختم نہ کرسکا تو وزارت ریلوے سے مستعفی جائوں گا اور عمران خان سے کوئی اور وزارت مانگ لوں گا۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ اگر بلاول پارٹی کے چئیرمین ہیں تو شیخ رشید بھی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے ارکان نے لوٹا لوٹا کے نعرے لگائے جبکہ آغا رفیع اللہ شیخ رشید کے سامنے آگئے تھے۔ شیخ رشید نے کہاکہ میں نے کبھی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کی ہنگامہ آرائی کے دوران قاسم سوری انہیں نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کرتے رہے اور وزیر ریلوے کو کہتے رہے کہ وہ اپنا خطاب جاری رکھیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان بھی سپیکر ڈائس پر آگئے۔ شیخ رشید نے کہا اگر مجھے نہ بولنے دیا گیا تو میں بلاول کو بھی بولنے نہیں دوں گا۔