نظام تعلیم کا حقیقی چیلنج

موجودہ حکومت نے نئے پاکستان کے ایجنڈے میں تعلیم کو سرِفہرست رکھا تھا۔ بجا طور پر تعلیم ہی کوسرفہرست ہونا بھی چاہیے۔کسی قوم کی پہلی اْٹھان ہو یا پستی سے نکلنے کے لیے تعمیر نو کی دوسری اٹھان، یہ تعلیم ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہیں۔
اْمت مسلمہ اپنی پہلی اْٹھان میں اپنے دعوؤ ں کی تصدیق کروا چکی ہے جو تاریخ کے ریکارڈ کا ایسا حصّہ ہے جسے آنے والے کسی دور میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ لیکن ہماری نشاۃ ثانیہ نے بہت بڑے بڑے چیلنجز ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ مغرب کی تہذیبی ،ثقافتی اور ٹیکنالوجیکل یلغار کا چیلنج توسامنے تھا ہی لیکن قومی ریاستوں میں تقسیم در تقسیم مسلم خطّے کا جغرافیہ کسی اجتماعی کوشش کے امکان کو مشکل سے مشکل تر بنا دیتا ہے۔ بد قسمتی سے او آئی سی بھی کسی مشترکہ کوشش کو آگے بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن اِس کے باوجود کہیں نہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہی ہو گا۔ ایک ایسا آغاز جو وسعت کے ساتھ پھیلائو کے امکانات کا حامل ہو ،جو ا مت کے اجتماعی تصّور کے تحت کی جانے والی کوششوں کا حصّہ ہو۔ زوال کے عہد کی پستیوں سے نکلنے کے لیے تعلیم پہلا قدم اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ تعلیم ہی زوال کی پستیوں سے نکلنے کا واحد راستہ ہوتی ہے لیکن سر دست یہ کام ا مت کی سطح پر کسی مشترکہ کوشش کے امکان سے خالی ہے۔ 
زوال کی نوعیت کو جاننے کے لیے اسباب کے دریچوں سے جھانک کر دیکھیں تو بیرونی حملہ آوروں کے حوالے سے دو بڑے واقعات ہمیں نظر آتے ہیں پہلا واقعہ فتنہ تا تا ر کاہے جب گھوڑوں کی پیٹھوں پر رات گزار دینے والے منگولوں نے ایشیا ئی معاشروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔جب یہ کہا جانے لگا کہ اگر تم یہ سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو مان لینا اور اگر یہ سنو کہ تا تار یوں کو شکست ہو گئی تو یہ نہ ماننا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک تاتاری سپاہی 500مسلمانوں کو ایک رسّی سے باندھ کر جانوروں کی طرح ہانک کر لے جا رہا تھا تب ایک مسلمان کا ہاتھ رسّی کے حلقے میں سے باہر نکل آیا تو اس نے ایک تاتاری کے خوف سے اپنا ہاتھ دوبارہ رسّی کی گرہّ میں پھنسا لیا۔ جب دجلہ و فرات کا پانی مسلمانوں کی لائبریریوں کے قلمی نسخوں کی روشنائی سے سیاہ ہو گیا۔جب منگولوں کی اندھی طاقت کے سامنے سپر ڈال دی گئی۔ تب غلامی اور خود سْپر دگی پر اکتفا کرلینا ہی زندہ رہنے کی ضمانت بن گیا۔
پھر یوں ہوا کہ جبر کی انہی سنگلاخ چٹانوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی فکر کی کسی کو نپل نے سراْبھار ا اور چٹانیں تِڑکنے لگیں۔خانہ بدوشوں کی اندھی طاقت کے پاس فکر کا کوئی سرمایہ نہیں تھا لہٰذاْنہوں نے فکر کے محاذپر ہمارے سامنے سپر ڈال دی اور وہ حلقہ بگوش اِسلام ہوگئے۔ فاتحین نے اپنی رضا سے مفتوح ہونا قبول کر لیا۔
دوسرا واقعہ مغرب کی اْس اْٹھان کا ہے جو اپنی بحری قوت کے ذریعے سمندروں کی چھاتی کو چیرتی ہوئی ایشیاء کے میدانوں میں اْتر گئی۔ بندوق و بارود کی عسکریت نے اقوام ایشیا ء کو پامال تو کیاہی تھا لیکن کالونیل ازم کے دو صدیوں پر محیط پڑانے اِس خطّے کی ہر تہذیب و ثقافت میں اجنبیت کا وہ زہر گھول دیا کہ قوموں کے ہجوم میں سب کے سب اپنی شناخت سے محروم ہوتے چلے گئے۔
قابضین نے سب سے پہلے نظام تعلیم ہی کو ہدف بنایا۔ انھیں معلوم تھا کہ مفتوح قوموں کی باطنی ساخت کو نظام تعلیم ہی کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے یا کم از کم اندرونی ساخت اپنی اصل پر قائم نہیں رہتی۔
ہمارا تعلیمی نصاب ایک اجننی تصورّ علم کے فریم میں نصب کر دیا گیا ہے ،ہمیں ہماری تہذیبی اصل اور شناخت سے دور کرنے کے لیے ہماری تاریخ اور تمدن کی جگہ قابضین کی اپنی تاریخ و تمدن نے لے لی۔ طریقِ تدریس تبدیل ہوا، کمرئہ جماعت کی ہیئت بدل گئی ،ا ستاد کی جگہ ٹیچر نے لی تو معلم اور طالب علم کے تعلق کی نوعیت بدل گئی ، مقامی زبانوں کی جگہ اجنبی زبان نے لی تو ہماری اقدار ہماری نہیں رہیں اور اجنبی قدریں ہماری ہو نہیں سکتی تھیں لیکن فاتح کی نظر میں سرخرو اورمحض روزگارکے حصول کے لیے کامیاب ہونے کی خاطراْن قدروں کو اپنالیا گیا جس کی بدولت ہم ،ہم نہیں رہے اور جو بننا چاہتے تھے آج تک بن نہیں سکے۔ 
یہی تو ہے تہذیبوں کا حقیقی تصادم کہ ہم اپنی اقدار پر شرمندہ ہوں اور اجنبی اقدار کو اپنا نا فیشن بن جائے۔ اسی تصادم کے نتیجے میں ہمارے معاشروں کی اشرافیہ میں ایک ایسے طبقے نے جنم لیا جس نے مقام و مرتبے (status) کی نئی قدریں اور deadlinesمتعارف کرائیں۔ اسی طبقے کا ذکر کرتے ہوئے فرانس کے معروف فلسفی سارتر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کالونیل عہد میں وہ مقبوضہ علاقوں سے اشرافیہ کے چنیدہ لوگوں کو اپنے پاس بلاتے تھے۔ انہیں سوٹ پہننا ، ٹائی باندھنا، وہسکی پینا اور ڈانس وغیرہ کرنے کے ’’آداب‘‘ سکھاتے تھے۔ اِس طرح وہ خود کو اپنے ہی معاشرے کے دیگر لوگوں سے اعلیٰ و افضل سمجھنے لگتے تھے پھر انہیں وہ اِن کے معاشروں میں واپس بھیج دیتے تھے۔ اِس طرح ان کا امتیاز انہیں فخر اور ان کے بھائی بندوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا تھا۔
کالونیل ازم نے اِن خطوں کو تقریََبا ایک ہی طرح سے متاثر کیا غلامی کی تاثیر ایک جیسی ہی ہوتی ہے جس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں آج تک موجود چلے آ رہے ہیں۔ بیرونی آقاؤں نے ہمارے نظام و نصاب تعلیم کو اِسی لیے تہہ و بالا کیا تھا کہ اْن کے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے اندر غلامی کے اثرات موجود رہیں۔آج اپنے نظام تعلیم کے ذریعے ہمارے سامنے کوئی ایسا ہدف نہیں ہے کہ ہم اچھے انسان یا اچھے مسلمان بن سکیں ، ہدف ہے تو صرف یہ کہ ہم اچھے انگریز یااچھے مغربی بن جائیں۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن