بجٹ پر تاجر برادری کا ملا جلا رد عمل

مالی سال 2019-20 کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ پر ملک بھر کی تاجر برادری نے ملا جلا رد عمل دیا جہاں چند نے اسے مسترد کیا تو کسی نے اس میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا اور چند نے اسے مناسب قرار دیا۔وزیر مملکت حماد اظہر کی جانب سے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے بعد کراچی کے معروف تاجر سراج قاسم تیلی نے کراچی چیمبر آف کامرس میں دیگر تاجروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں کئی اقدامات خوش آئند اقدامات کیے ہیں اور 5 ہزار 550 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف طے کیا گیا جو گزشتہ سال سے 1550 سے 1600 ارب زیادہ ہے تاہم ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ 'بجٹ میں چینی کی قیمتوں پر لگنے والے ٹیکس میں اضافے سے حکومت کا عام آدمی کو ریلیف دینے کا دعوی غلط ثابت ہوا جبکہ سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اپنا گھر بنانے کے خواہش مند افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 'تاجر برادری نے جو عمران خان سے امیدیں رکھی تھیں اس پر وہ پورا نہیں اترے ،ڈالر کی وجہ سے صنعتوں کا پہلے ہی برا حال ہے، صنعت کار اتنا ٹیکس کہاں سے دیں گے'۔ان کا کہنا تھا کہ 'عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس صنعت پر وہ ٹیکس لگارہے ہیں کیا اس کی اتنی استطاعت ہے کہ وہ اضافی ٹیکس ادا کرسکے'۔انہوں نے تجویز دی کہ بجٹ میں تبدیلیاں کرنی چاہیے۔لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر الماس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی بجٹ 20-2019 کو مناسب قرار دے دیا۔ان کا کہنا تھا کہ 'مشکل معاشی حالات میں یہ بجٹ کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے'۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خام مال پرڈیوٹی زیروریٹڈ کرنا اچھا کام ہے اس سے بر آمدات میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں نجکاری کا اعلان خوش آئند ہے، منصوبوں کو چلانا حکومت کا کام نہیں، اس کے لیے کاروباری برادری کو موقع دیا جانا چاہیے، مزدوروں کے لیے کم ازکم تنخواہ 17 ہزار 500 کرنا بھی اچھا اقدام ہے۔انہوں نے بجٹ پر حکومتی اقدامات کو سراہا تاہم گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔سرحد چیمبر آف کامرس نے وفاقی بجٹ 20-2019 مسترد کردیا اور کہا کہ بجٹ میں صرف ٹیکس لگائے گئے ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع بڑھانے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا گیا۔معروف تاجر فیض محمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 'جس شرح سے ٹیکس لگائے گئے ہیں مزید مہنگائی ہوگی، حکومت نے فاٹا اور پاٹا کو 5 سال کے لیے ٹیکس سے استثنی کا مطالبہ نظر انداز کردیا ہے'۔ان کا کہنا تھا کہ 'بجٹ میں کراچی اور کوئٹہ کو پیکج دیا گیا لیکن پشاور کو نظرانداز کردیا گیا'۔کوئٹہ چیمبر آف کامرس نے بھی مالی سال 20-2019 کا بجٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں انڈسٹریز کے قیام سے متعلق بات نہیں کی گئی۔معروف تاجر جمعہ خان بادیزئی کا کہنا تھا کہ 'تاجروں اورصنعتکاروں کے لیے وفاقی حکومت نے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا اور تاجروں کے لیے ریلیف کے بجائے مزید مشکلات پیدا کی گئیں ہیں۔تاجر بدرالدین کا کہنا تھا کہ اس بجٹ سے صوبے میں موجود صنعتیں مزید بدحالی کی جانب جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے برآمدات کی مد میں صرف 40 ارب روپے رکھے ہیں جو ناکافی ہیں، خام مال کی قیمت بڑھنے کا واضح اثر صنعتکاروں پر ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ' وفاقی حکومت نے بجٹ میں ہمسایہ ممالک سے کاروباری روابط سے متعلق حکمت عملی وضع نہیں کی۔

ای پیپر دی نیشن