’’بٹیر‘‘ ’’اصیل مرغ‘‘ اور ناکام امریکی منصوبہ

امریکہ نے چین کو حصا ر میں لینے اس کی تیزی سے بڑھتی عسکری قوت اور معاشی وسعتوں کا پھیلائو روکنے کیلئے ’’ایشین پیسفک‘‘ کا نام ’’انڈو پیسفک‘‘ رکھ کر بھار ت کواس کے مقابلے کیلئے تیار کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ’’بٹیر‘‘ کو ’’اصیل مرغ‘‘ سے لڑائی کیلئے تیار کیا جائے۔ اس منصوبے کا خاص اور دلچسپ پہلو ’’میرا ہی سر ، میرا ہی جوتا‘‘ ہے۔ یعنی بھارت کے حکمرانوں کو ’’علاقائی طاقت‘‘ کے زعم میں مبتلا کرکے اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا اربوں ڈالر کا اسلحہ اور دیگر جنگی ہتھیار فروخت کرنا۔ 1962ء میں فیفا کے محاذ پر چین سے عبرتناک شکست کے بعد بھارتی حکمرانوں نے چین کو راضی رکھنے کیلئے اپنی مارکیٹ چین کیلئے کھولنے کی حکمت عملی اختیار کی بلکہ چانکیاتی فلسفہ کے مطابق چین کو نقصان پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں بھی رہے اور خود کو چین کے مقابل لانے کیلئے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی تجوریوں کے پیٹ بھرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت ہی کے کارپوریٹ شعبہ کے ذریعہ نریندر مودی کو اقتدار میں لانا چین مخالف منصوبے کا ہی حصہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دبائو سے مجبور ہوکر بھارت نے اپنے کچھ فوجی لداخ میں داخل کرنے کی حماقت کی۔ مقصد چین کا ردعمل جانچنا اور وہاں چین کی عسکری پوزیشن کا جائزہ لینا بھی تھا۔ بھارتی فوجیوں کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا تھا بلکہ ان کی اچھی خاصی دھنائی کرکے واپس بھیج دیا۔ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اعتراف کیا کہ یہ فوجی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں اس صورتحال میں مودی نے امریکی صدر ٹرمپ سے مدد کیلئے رابطہ کیا تو مایوس کن جواب ملا یہ تنازعہ باہمی طور پر حل کرو، جس کے بعد مودی، وزیر دفاع آرمی چیف، ایئر چیف، نیول چیف، اجیت دورل کو چپ لگ گئی جو چین سے شرمناک شکست کا اعتراف ہے ۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا پر بھی سناٹا ہے۔
بھارت کے دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا’’ بزنس ٹرینڈ ‘‘ میں شائع انٹرویو میں یہ پول کھول دیا گیا ہے کہ 1999ء کے بعد کوئی غیرملکی فوج بھارتی سرزمین میں داخل ہوئی جسے باہر نکالنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ چین نے دریائے گالوان کے ساتھ بھارت کے چار علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ یاد رہے 5 اگست 2019ء کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تو اس کے بعد جاری کردہ بھارت کے نقشے میں ان علاقوں کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جن پر چین کا دعویٰ ہے۔ جواب میں چین نے نہ صرف ان علاقوں پر باقاعدہ قبضہ کرلیا ہے بلکہ مزید تین کلومیٹر آگے بڑھ کر بھارتی علاقے کو بھی اپنی حدود میں شامل کرلیا۔ بھارت کے مقامی کمانڈر نے متعدد بار فلیگ میٹنگز کیلئے پیغامات بھیجے مگر چین کے مقامی کمانڈر نے کوئی جواب نہیں دیا بعدازاں مودی نے بار بار بیجنگ سے رابطہ کیا بالآخر وزارت خارجہ کے ایک چھوٹے آفیسر نے استفسار کیا کہ کیا بات کرنی ہے تاہم مودی کے بے حد اصرار کے بعد چینی صدر بات چیت پر آمادہ ہوئے ان کی طرف سے مودی سے کہا گیا اب تک جو کچھ ہوچکا ہے وہ واپس نہیں ہوگا۔ اس سے آگے کی بات کی جائے گی اس دوٹوک جواب نے بھارت میں شدید مایوسی اور سبکی کی فضا پیدا کردی ہے اس سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان دشمن جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے شکر گڑھ کے نوجوان کا پالتو کبوتر ’’خطرناک جاسوس‘‘قرار دے کر پکڑنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا پھر پاکستانی ہائی کمشن کے دو ملازمین کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اب مودی سرکار شرمندگی سے بچنے کیلئے پاکستان کے ساتھ محدود پیمانے کی جنگ کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ اس مقصد کیلئے نیا پلوامہ ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی۔ ساڑھے تین سو کلو گرام بارودی مواد والی گاڑی ماسٹر مائنڈ عادل ڈار سمیت پکڑے جانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر خود بھارتی میڈیا نے پول کھول دی کہ عادل ڈار تو 1917ء سے بھارت کے زیرحراست ہے۔
بہرحال اب امریکہ کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ ’’اصیل مرغ‘‘ (چین) سے لڑانے کیلئے جس ’’بٹیر‘‘ کو تیار کیا جارہا تھا اس میں اتنا دم خم نہیں ہے چنانچہ اب چین کیخلاف ایک نیا جال بچھایا جارہا ہے۔ امریکی سینیٹر شاک بیری نے سینٹ میں ایک بل پیش کیا جس کے تحت صدر ٹرمپ کو اختیار دیا گیا کہ وہ تبت کو ’’آزاد ملک‘‘ کے طور پر تسلیم کرلیں۔ چین مزاحمت کرے تو اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں مگر یہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی بات ہے ۔ سلامتی کونسل میں چین تو ویٹو کرے گا ہی روس بھی اس کا ساتھ دے گا۔ بات فوجی تصادم تک پہنچی تو امریکہ براہ راست مقابلے پر نہیں آئے گا۔ بھارت کو ہی آگے کرے گا جس کی تیرہ میں سے آٹھ نو لاکھ فوج تو مقبوضہ کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے اس میں سے کچھ کنٹرول لائن پر مسلسل خلاف ورزیوں میں لگی ہوئی ہے جبکہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ فوج سکم ، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پورہ وغیرہ میں علیحدگی کی تحریکوں کیخلاف مصروف ہے۔
نیپال کے علاقے کالا پانی پر قبضہ اور غیرقانونی سڑک کی تعمیر سے دونوں ملکوں میں حکومتی اور عوامی سطح پر کشیدگی عروج پر ہے۔ چین کی بھاری سرمایہ کاری نے نیپالی عوام کو اپنی زبردست ترقی و خوشحالی کی راہ دکھا دی ہے۔ چین کے عزت بیگ روڈ پر قبضہ اور اعلی معیار کی سڑک کی تعمیر کے بعد نہ صرف نیپال بلکہ کسی پیک کا راستہ مزید کم ہوگیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ امریکہ اور بھارت چین کی اقتصادی پیش قدمی روکنے کیلئے جو بن پڑا کریں گے پاکستان سے جنگ اس کا حصہ ہوگی تاہم پاکستانی فوج اور قوم ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن پر دشمن کے سامنے سینہ تانے پاک فوج کے شیردل جوانوں کے ساتھ عید منانے کی اپنی ولولہ انگیز روایت برقرار رکھی۔ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی صرف آرمی چیف نہیں پوری قوم کا فرض ہے جو پاکستان اور عوام کی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے دشمن کے سامنے اپنے سینوں کو ڈھال بنائے سرحدوں پر جاگ رہے ہوتے ہیں۔ جب اہل وطن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھروں میں تحفظ کے احساس کے ساتھ پرسکون نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اور اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے پیش نظر خود ان جوانوں کے بیوی بچے جدائی کی کسک کے ساتھ عید منا رہے ہوتے ہیں۔
تاریخی طور پر ہندوستان مہاراجہ اشوک کے دور کے سوا کبھی ایک ریاست نہیں رہا بلکہ کیسے ہمیشہ سے بے شمار چھوٹی بڑی ریاستوں میں بٹا رہا ہے۔ مسلمان فاتحین نے اسے ایک ملک کی شکل دی یہ بھی تاریخ ہے کہ متذکرہ ریاستوں کے ہندو راجائوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جبکہ پورے ہندوستان کے آخری مسلمان حکمران بہادر شاہ ظفر کے دور تک تاریخ کے اوراق ایک بھی ایسی مثال پیش کرنے سے عاجزہیں کہ کسی مسلمان حکمران نے ہندوئوں کو مذہب کی بنیاد پر زیادتی کا نشانہ بنایا ہو، بلکہ بھارت میں متھرا اور کاشی سمیت جتنے بھی مندر ہیں ان سب کے انتظامات کیلئے اورنگ زیب عالمگیر نے ایکڑوں کے حساب سے زمینیں الاٹ کیں مگر کم ظرفی کی انتہا ہے کہ بھولے سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

ہندو راجائوں کے عمومی رویوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی ریاست بیجاپور پر قبضہ کیلئے ہندو راجہ شیواجی نے منصوبہ بنایا۔ بیجاپورکے حکمران عادل شاہ نے اپنے جرنیل افضل خان کو دس ہزار کا لشکر دے کر اس کی سرکوبی کیلئے بھیجا ۔ شیوا جی یہ لشکر اور ہتھیار دیکھ کر ڈر گیا اور صلح کا پیغام بھجوا یا۔ افضل خان نے اسلامی روایات کے مطابق اسے اپنے خیمے میں بلا لیا۔ شیواجی نے عیاری سے گلے ملتے ہوئے ’’بچھوا‘‘ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور پھر بغل میں چھپایا ہوا خنجر نکال کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ’’بچھوا‘‘ شیر کے پنجے جیسا ہتھیار ہے یہ واقعہ 1659 ء کا ہے آج بھی شیواجی ہندوئوں کا ہیرو ہے ویسے دیکھا جائے تو شیواجی سے بال ٹھاکرے، امیت شا اور نریندر مودی تک مسلمانوں کے ساتھ عیاری مکاری کے حربے اختیار کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے گائو رکھشا کے نام پر جھاڑکھنڈ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ یہ سلسلہ نیا نہیں صدیوں پرانا ہے ایک انتہاپسند ہندو دیاتندا نے 1882ء میں یہ تحریک شروع کی جبکہ اس کے شاگر دشردھانند نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کیلئے شدھی تحریک شروع کی۔ ہندو انتہا پسندی کے خوفناک سلسلے کا آغاز 1925ء میں ڈاکٹر کیشو بلی رام کی قائم کردہ راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے شروع ہوا۔ آج حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس کا سیاسی شعبہ ہے جو آر ایس ایس کے مسلمان دشمنی عزائم کو حکومتی طاقت سے پورا کررہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن