پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کی رکن خدیجہ عمر مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ایسے وقت میں جب عوام کے منتخب نمائندوں کی اکثریت کرونا کے خوف سے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔ ان حالات میں خدیجہ عمر نے حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ خدیجہ عمر نے گستاخانہ مواد کی اشاعت کو روکنے کا بل پیش کر کے دل جیت لیے ہیں۔ جب اپنے اپنے صوبوں کی شان لمبے چوڑے جوان، بڑی بڑی گاڑیوں، فارم ہاؤسز کے مالک اور سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ گھومنے والے عوام کے منتخب نمائندے گھروں میں بیٹھ گئے تو ایک خاتون نے ناصرف اجلاس میں شرکت کی بلکہ ایک ایسا بک پیش کیا جس کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ انہوں نے اجلاس میں گستاخانہ مواد کی اشاعت روکنے کے لیے پیش کیا جانے والا بل حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طورپر منظور کر لیا۔ اس قانون کے تحت اسکولوں کی دینی کتب،دینی مواد کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ متحدہ علماء بورڈ سے منظور کروانیکاپابند ہوگا۔اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کہتے ہیں کہ اللہ کے دین کے خلاف ا?ئے روز سازشیں ہوتی ہیں ان سازشوں کی وجہ سے طلبہ کے ذہن میں شکوک وشہبات پیدا ہوتے ہیں اس قانون کے ذریعے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اب ٹیکسٹ بورڈ تعلیمی موادکی علمائ سے تصدیق کروانے کا پابند ہوگا۔
یقینی طور پر یہ ایک مثبت اور تعمیری قدم ہے۔ اسمبلیوں کا کردار ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ملک و قوم کی ضرورت کے مطابق بروقت قانون سازی ہونی چاہیے۔ یہ اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب اراکین اسمبلی مسائل پر توجہ دیں اور یہ جانتے ہوں کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ قانون سازی کے لیے حالات حاضرہ اور عوامی مسائل پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بالخصوص مذہبی معاملات میں سازشیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ہر سطح پر مختلف مذہبی معاملات میں ایسی متنازع چیزیں ضرور ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو ہر وقت مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے تاک میں رہتے ہیں۔ ناصر مذہبی منافرت پھیلانے بلکہ انتہائی حساس معاملات میں بھی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ ختم نبوت کے قانون کو دیکھیں، میاں نواز شریف کے دور حکومت میں بھی ایسی کارروائیاں ہوئی ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی قادیانیوں کے حوالے سے یقیناً کچھ لوگ خاموش انداز میں منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جو لوگ اس غلیظ کام کا حصہ ہیں وہ اور ان کے بڑے یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے لیکن وقتاً فوقتاً ایسی حرکتیں صرف ردعمل دیکھنے کے لیے کی جاتی ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ قوم ختم نبوت کے قانون پر جاگ رہی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے آئین پاکستان بہت واضح ہے اس کے باوجود کوئی کو چور دروازے سے گھسنے یا اسے گھسانے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ کتابوں میں تبدیلیاں بھی اسی غلیظ عمل کا حصہ ہیں۔ کبھی جہاد کے موضوع کو چھیڑا جاتا ہے کبھی خاتم النبیین کے لفظ کو چھیڑا جاتا ہے۔ نعوذ باللہ یہ قرآن کے الفاظ ہیں کوئی بدبخت انہیں ہلا بھی نہیں سکتا۔ اس اٹل حقیقت کے باوجود قرآن اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے سازشیں جاری رہتی ہیں۔ اس قانون سازی کے بعد ایوان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ قانون پر عملدرآمد سب سے اہم مرحلہ ہے۔ جس طرح بروقت قانون سازی کی گئی ہے بالکل اسی جوش و جذبے کے ساتھ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف حوالوں سے اسمبلیوں کے کردار پر تنقید ہوتی ہے اکثر اوقات تنقید جائز ہوتی ہے کیونکہ منتخب نمائندے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس بل کو مثال بنا کر پیش کیا جائے تو ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایوان میں بیٹھے لوگ ملک و قوم کے محافظ ہیں۔ اسلام کی سر بلندی، آئین اور قانون پر عملدرآمد کے لیے اراکین اسمبلی کو مثال بننا چاہیے۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا مستقبل ہوتا ہے اگر یہ ایوان میں صرف نعرے لگانے یا پھر اپنا اپنا حصہ اٹھانے آئیں تو ناصرف یہ حلف سے انحراف ہے بلکہ عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی بھی نفی ہے۔ اسلام مخالف کوئی بھی سازش یا بحث کو سب سے پہلے اسمبلی کی سطح پر ہی مسترد کرنا چاہیے یہ ایوان میں بیٹھے ہر شخص کی ذمہ داری ہے اگر اراکین اسمبلی اپنی یہ بنیادی ذمہ داری نبھائیں تو کبھی احتجاج اور مظاہروں کی نوبت نہ آئے۔ ایوان اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتا ہے تو عوام کو سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ اراکین اسمبلی سوئے رہتے ہیں تو انہیں جگانے کے لیے عوام کو گھروں سے نکل لاک ڈاؤن کرنا پڑتا ہے۔ اگر منتخب نمائندے عوامی مفادات اور عوام کے احساسات کی حفاظت کریں تو کبھی سڑکوں پر اسمبلیاں نہ لگیں۔ کاش کہ منتخب نمائندے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ جائیں۔ جس کام کے لیے انہیں ایوان میں بھیجا جاتا ہے اگر وہ کام ایمان داری اور دلجمعی سے کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کو درپیش بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے اس اہم اجلاس میں اراکین کی عدم دلچسپی کے حوالے سے چند روز قبل بھی انہی صفحات پر تنقید کی گئی تھی لیکن اس قانون سازی کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسمبلی کے اجلاس کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ یہ قانون سازی اراکین کے لیے سبق ہے کہ اگر وہ توجہ دیں تو عوام کے بنیادی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کیوں مہنگائی پر اعداد و شمار کے ساتھ بحث نہیں ہوتی، کیوں آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر زمینی حقیقت اور اعدادوشمار پر بحث نہیں کیوں جاتی، کیوں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور درست اعدادوشمار ایوان کے سامنے نہیں رکھے جاتے۔ ان کاموں کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ عوام میں جانا پڑتا ہے اگر منتخب نمائندے توجہ دیں تو یقیناً عام آدمی کی زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
خدیجہ عمر کو سلام!!!!!
Jun 11, 2020