’’سوویت یونین کے بعد اب بھارت کی باری‘‘

لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں باقاعدہ جنگ میں ناکامی یا پسپائی کے بجائے لاتوں ، گھونسون سے بھارتی فوج کی پٹائی اور فرار کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے اور سرحدی تنازع بھی سنگین ہوگیا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ 1959ء سے جاری ہے ۔ بھارتی فوج کی ذلت آمیز ہزیمت اور بے عزتی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں افواج کے سربراہوں سے صلاح مشورے شروع کردیے ہیں ۔ ادھر چینی صدر شی جن پنگ نے فوج کو کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھرپور تیاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بد ترین حالا ت کے لیے مشقیں مکمل کرے ۔ بیجنگ نے کشمیر کے علاقے اکسائے چین پر فوجی قوت بڑھادی ہے اور لداخ میں بھارتی فوج کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حسب عادت دخل در معقولات کرتے ہوئے چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ایسی پیشکش کرکے خاموش ہوگئے تھے ۔ اس وقت بھارت نے ان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کردی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا مطالبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا ۔ چین کے مقابلے میں بھارت کی ہمیشہ سیٹی گم رہتی ہے ۔ اس لیے وہ شاید امریکی صدر کی پیشکش پر غور کرکے اسے بھی قبول کرے ، لیکن چین یہ کہہ کر ہمیشہ ناسور بنا رہا ہے ۔ اس کی چین پاکستان ، نیپال او ربنگلہ دیش سمیت ارد گرد کے ممالک سے کبھی نہیں بنی اور ان کے ساتھ تعلقات میں اکثر کشیدگی ہی دیکھنے میں آئی ہے ۔ پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کی گود میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے وہ خطے میں اپنی بالا دستی کے خواب دیکھتا ہے اس زعم باطل کی وجہ سے وہ چھوٹے ممالک کو تو اہمیت نہیں دیتا لیکن چین جیسی بڑی اور عالمی قوت سے بھی ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید چین کے مخالف مغربی ممالک اس کی مدد کو آجائیں ۔ بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کا زیادہ اعتماد انحصار امریکہ پر ہے جو خود افغانستان سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں ماررہا ہے ۔ افغان مجاہدین نے 10سال کی جنگ میں پہلے سوویت یونین کے پرخچے اُڑا نے تھے اس کے بعد امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کو 20برسوں کے دوران تگنی کا ناچ نچایا کہ شاید جانی و مالی نقصان اور بعد ذلت و رسوائی کے بعد وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کے لیے طالبان کی خوشامد اور ان سے مذاکرات میں لگا ہوا ہے ۔ جنوبی ایشیاء کی موجودی صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے ایک طرف چین سے اور دوسری طرف پاکستان سے اس کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں اور اگر امریکہ نے بھی اس تنازع میں دخل اندازی کی کوشش کی تو اس کا بھی حشر افغانستان میں شکست اور پسپائی سے زیادہ خراب ہو گا ۔ یہ دو ر روایتی اور اسلحے کی بنیاد پر جنگ لڑ کر فتح حاصل کرنے کا نہیں ہے ۔ اب افرادی قوت اور معاشی برتری سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن میں چین سب سے آگے ہے۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بودیل نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ اب دنیا کی رہنمائی کرتا ہو انظر نہیں آتا ۔ چین عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے رہا ہے ۔ ایک مدت سے امریکی رہنمائی میں چلنے والے عالمی نظام کے بجائے ایشیائی قوتوں کی بالا دستی کی پیشنگوئی ہو رہی تھی جو موجودہ حالات میں پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ بھارت نے اگر چین سے ٹکر لی تو یہ مرحلہ جلد پیش آسکتا ہے ۔ بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کی انتہا پسندی کے باعث مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے مختلف علاقوں میں ان کے خلاف تحریکیں شروع ہوچکی ہیں۔ جن میں کئی علیحدگی پسندی کی جانب مائل اور سرگرم عمل ہے ۔ اس بناء پر بھارت اندرونی طور پر بری طرح کمزور ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف چین کے عالمی قوت کی حیثیت سے ابھرنے کے ساتھ اس کی پاکستان سے بے مثال دوستی ایک ایسے اتحاد کی شکل اختیار کرگئی ہے کہ بھارت نے جنگ چھیڑنے کی حماقت کی تو اِ س کے ٹکرے ہونا سوویت یونین کے پرزے اُڑانے سے کہیں زیادہ نقصان ہوگا ۔ (جاری ہے)

سات سمندر پار سے آکر امریکہ اور اس کے طاقتور اتحادی 20برسوں کے دوران افغانستان میں کچھ نہ کرسکے ۔ جو افغان طالبان کی پشت پر کوئی بڑی تو کیا چھوٹی قوت بھی نہ تھی ۔ اب بھارت جیسے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ملک کا چین سے واسطہ پڑا اور اس کے ساتھ پاکستان ہوا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا وجود بھی باقی رہے گا یا نہیں ۔ امریکہ ، فرانس، انگلینڈ اور دوسرے ملکوں کی فوجیں جب تک بانپتی کانپتی یہاں پہنچیںگی اس وقت تک چڑیاں پورا کھیت چگ چکی ہوں گی ۔ امریکی صدر نے چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ میں یہ کہہ کر چین کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو افغانستان سے طوفان کی طرح ایسی کاروائیاں کریں گے جو اِ س سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوں گی ۔یادرہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3500کلو میٹر کی سرحد ہے ۔ ایک بڑا علاقہ ہمالیہ کے بلند وبالا پہاڑوں پر مشتمل ہے اس وقت کئی علاقے متنازع ہیں ۔ جن کو چین اور بھارت دونوں اپنا حصّہ قرار دیتے ہیں اگر جنگ چھڑ گئی تو بھارت کو اس کے علاوہ اپنے دوسرے علاقوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ چین نے حال ہی میں اپنے فوجی بجٹ میں 1کھرب 78ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے ۔ چنانچہ وہاں کے ذرائع ابلاغ مودی سرکار پر برس پڑے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے کارگل کی یا د تازہ کردی ہے اور بھارتی فوج اس کی پیش قدمی کو روکنے میں قطعی طور پر ناکام نظر آتی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ وچین کی جنگ میں افغانستان سے کیا طوفانی کاروائی کریں گے اور مودی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی بہت جلد سامنے آجائے گا ۔ فی الوقت بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کیلئے صحافتی برادری اور اپنے دانشوروں کا یہ مشورہ ماننے میں عافیت ہے کہ وہ جنگی جنون سے نکل کر سفارتی ذرائع سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں ورنہ بھارت کا حشر اپنی سابقہ سرپرست اور دوسری عالمی قوت سوویت یونین سے بھی بہت بر اہو گا۔

ای پیپر دی نیشن