اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہوں پر قبضے دو ماہ میں خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ عدالتی حکم ہونے کے باوجود وزارت ہاؤسنگ نے تمام قابضین سے سرکاری رہائش گاہوں کو خالی نہیں کروایا گیا۔ وزارت ہائوسنگ کی رپورٹ غیر تسلی بخش ہے۔ آئندہ سماعت پر سیکرٹری ہائوسنگ کی دستخط شدہ رپورٹ دی جائے۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں پر قبضے خالی کروانے کیلئے وزارت ہاوسنگ کو آ خری مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افسر ذاتی رہائش گاہیں ہونے کے باوجود سرکاری گھر الاٹ کرا لیتے ہیں کئی سرکاری افسران نے گھر الاٹ کروا کے کرایہ پر دے رکھے ہیں۔ وزارت ہائوسنگ کی پیش کردہ رپورٹس جھوٹ پر مبنی ہیںء ایڈیشنل سیکرٹری ہائوسنگ ظہور احمد نے عدالت کو بتا یا کہ ہر گھر کی تصدیق خود کرا کے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا ہے جبکہ 52گھروں کو خالی کراکے محکمانہ کارروائی شروع کر دی ہے گھروں کی انسپکشن کیلئے 48 ٹیمز تشکیل دی گئیں تھیں 116 سرکاری گھروں کو کرایہ پر دیا گیا تھا جن میں سے 31 کو خالی کرا لیا گیا ہے باقی گھروں کیلئے بھی کاروائی جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا سرکاری گھروں پر ابھی بھی قبضہ ہے لوگ ہمیں وزارت ہائوسنگ سے متعلق شکایات بھجواتے رہتے ہیں دردانہ کاظمی نامہ خاتون کے جی 6 میں سرکاری رہائش پر قبضے کی شکایت موصول ہوئی ہے خاتون کا صرف یہ کہنا ہے کہ والدہ بیمار ہیں اس لئے گھر کو نہیں چھوڑ سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا سرکاری گھروں پر قبضے کو فوراً پولیس لے کر خالی کرائیں سرکاری رہائش گاہیں صرف سرکاری ملازمین کیلئے ہیں نجی لوگوں کیلئے نہیں۔ اگر وزارت ہائوسنگ نے سرکاری رہائش گاہیں خالی نہ کرائیں تو آپ لوگ نوکریوں سے جائیں گے۔ ایڈیشنل سیکریٹری ہائوسنگ نے عدالت سے استدعا کی کہ مہلت دی جائے مکمل عمل کر کے رپورٹ پیش کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا ٹائم پے ٹائم لیا جاتا کام نہیں کیا جاتا۔ دو ماہ کے اندر کاروائی کر کے رپورٹ پیش کریں۔ بتائیں کہ ماتحت عدالتوں میں سرکاری گھروں سے متعلق کتنے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اسٹیٹ آفیسر نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں 30مقدمات تھے تمام نمٹا دیئے گئے ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے پاس 20 مقدمات تھے جو ختم ہو چکے تاہم سول عدالتوں میں 64 میں سے 48 مقدمات ابھی زیر التوا ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سپریم کورٹ کا حکم دکھا کر ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو بھی ختم کرائیں۔ دوران سماعت سی ڈی اے کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سیکس میں اسلام پولیس نے سی ڈی اے کے گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد کا گھر بھی سی ڈی افسروں کا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ حکومت کا معاملہ ہے خود حل کروائیں چیف جسٹس نے کہا اس معاملے کو آئیندہ سماعت پر دیکھیں گے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کے وکیل نے کہا کراچی جہانگیر کالونی میں گھروں کو خالی نہیں کرایا جا رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا کراچی میں اس کیس کو سنیں گے۔
2ماہ میں اسلام آباد کے سرکاری گھروں پر قبضے ختم نہ ہوئے تو ذمہ دار نوکریوں سے جائیں گے: چیف جسٹس
Jun 11, 2020