کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے حکومت کو پیش کردہ اپنی بجٹ تجاویز2021-22میں دستاویزی معیشت کی حوصلہ افزائی اور تعمیل کو بہتر بنانے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈجٹ پر لانے کی سفارش کی ہے۔ کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرہ نے فرسودہ معاشی پالیسیوں، ظالمانہ ٹیکس ریجم، ایف بی آر کے بوسیدہ اور رکاوٹوں کے حامل انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات لانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر اور اس کے ماتحت محکمے تب ہی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں جب تک بجٹ میں فرسودہ ریونیو ماڈل اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ سخت اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، سال 2020 نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں معیشت اور کاروبار کے لیے مشکلات کا باعث رہا ہے، کورونا کے وبائی مرض کی وجہ سے بنی نوع انسان کو بھونچالی صورتحال کا سامنا ہے کہ کس طرح عالمی معیشت اور بین الاقوامی مالیاتی نظام بنیادی طور پر تبدیل ہوگا اور نئی حقیقتوں کے مطابق ڈھل جائے گا۔کورونا کے وبائی مرض نے ہر ملک اور ہر انسان کو اس طرح سے متاثر کیا ہے جس کی کبھی توقع نہیں کی جاسکتی تھی،بہت سارے کاروبار اور صنعتیں جو وبائی مرض سے پہلے پھل پھول رہے تھے وہ یا تو ناکام ہو گئے یا پھر بند ہو چکے ہیں جبکہ جونئے کاروبار اور صنعتیں ابھری ہیں جنہوں نے نئی حقیقتوں کو اپنانے کی ضرورت کے پیش نظر بنوع نوع انسان ضروریات بدلنے کا فائدہ اٹھایا ان میں ای کامرس، ہیلتھ کیئر اور فارما سیکٹر کورونا وبا سے سب سے زیادہ مستفید ہوئے۔شارق وہرہ نے مزید کہاکہ ملک اور اس کی معیشت کو بجٹ کے عموماً پرانے سانچے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے معمول سے ہٹ کر حل کی ضرورت ہے ، دستاویزی معیشت کی حوصلہ افزائی اور تعمیل کو بہتر بنانے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کی ضرورت ہے۔ کے سی سی آئی نے بجٹ 2021-22 کے لیے اپنی تجاویز میں کہا کہ پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت سیلز ٹیکس کی اتنی زیادہ شرح دستاویزی معیشت اور تعمیل میں رکاوٹ ہے،ٹیکسوں کی انتہائی زیادہ شرح کے ساتھ عموماً بالواسطہ ٹیکسز اسمگلنگ، چوری، انڈرانوائسنگ اور مس ڈکلیریشن کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ سپلائی چین کو دستاویزی کرنے سے دور رہنے کی ترغیب بھی دیتی ہے جس کا سارا بوجھ رجسٹرڈ مینوفیکچررز، درآمد کنندگان اور تاجروں پرڈال دیا جاتا ہے۔صدر کے سی سی آئی کے مطابق بجٹ تجاویز میں ایف بی آر کو یہ تجویز بھی دی گئی کہ زیروریٹڈ سیلز ٹیکس کو ’’نہ ادائیگی نہ واپسی‘‘ کے مقصد کے ساتھ بحال کیا جائے۔ بجٹ 2019-2020 میں وفاقی حکومت نے ایس آر او1125واپس لے لیا تھا اور ابتدائی طور پر5 زیرو ریٹڈ برآمدی سیکٹرز پر 17فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا تھا اور برآمد کنندگان کو کنسائمنٹ کی برآمد کے بعد رقم کی واپسی کے لیے درخواست دینے کی ہدایت کی گئی۔ انہوں نے مزید کہاکہ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ جن برآمدکنندگان نے اب تک ریفنڈ کلیمز جمع کروائے ہیں انہیں ریفنڈ کلیمز کا صرف 35 فیصد ہی مل پایا جبکہ 65 فیصد ریفنڈ کلیمز اب بھی حکومت کے پاس پھنسے ہیں جو برآمد کنندگان کے رواں سرمائے کا تقریباً 12 فیصد ہے حالانکہ برآمد کنندگان کے منافع کا مارجن صرف 5 سے 8 فیصد کے لگ بھگ ہے مزید برآں برآمد کنندگان کنسائمنٹ کی برآمد کے بعد ہی ریفنڈ کے لیے درخواست دے سکتا ہے اس طریقہ کار کی وجہ سے ان کا سرمایہ پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح برآمد کنندگان کم از کم 6 ماہ قبل برآمدی مصنوعات کی پیداوار کے لیے خریداری کرتے ہیں جو برآمدی آرڈرز کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے مگر ریفنڈ کی مد میں سرمایہ پھنسنے سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کے سی سی آئی نے تجویز پیش کی کہ ایس آر او 1125 کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کیا جائے اور پانچوں برآمدی سیکٹرز کے لیے ’’نہ ادائیگی نہ سیلز ٹیکس کی واپسی‘‘کے نظام کو دوبارہ متعارف کرویا جائے۔ اگرچہ حکومت نے فاسٹر سسٹم کو بہتر کیا ہے لیکن اس کے باوجود برآمد کنندگان کو شپمنٹ روانہ کرنے کے بعد ریفنڈ کلیمز جمع کروانے کی صورت میں سرمائے کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ریفنڈ میں کم از کم 3 ماہ لگ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سرمائے کی قلت برقرار رہتی ہے جس سے برآمد کنندگان پر مالی دباؤ رہتا ہے۔