جون 1984 میں بھارتی فوج، بی ایس ایف اور پنجاب پولیس نے سکھوں کے مقدس ترین مقام ہرمندر صاحب امرتسر پر حملہ کیا اور سینکڑوں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھون ڈالا گیا۔اس سے قبل انند پور صاحب مورچہ کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ خاص طور پر دھرم ید تھا اور سیاست کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔پنجاب اور خاص کر سکھوں کے جذبہ حریت کا ایک مرتبہ پھر امتحان شروع ہوا۔بھارتی حکومت کی سکھ مخالف کارروائی کا بھیانک آغاز اپریل 1978 سے ہوتا ہوا 1980 میں خطرناک صورت اختیار کر گیا۔درجن سے زیادہ سکھ مار دئیے گئے مگر اس تحریک کو دبایا نا جا سکا۔ اگلا احتجاج جیل بھروتحریک کی صورت میں تھا۔ ان تمام سکھ مخالف اقدامات اور سکھ رد عمل سے ایک شخصیت سامنے آئی جن کا نام جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ تھا جو ایک دھرم پرچارک تھا ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ سکھ قوم اور پنجاب کے مفادات پر مورچوں میں شہرت ملی اور کہا جاتا ہے کہ انہیں گیانی ذیل سنگھ کی مددبھی حاصل تھی۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے امرتسر میں ہرمندر صاحب میں قیام اور غریبوں کی مدد کرتے۔ وہ ظالم اور استحصال کرنے والوں کے خلاف عدالت لگا کر فوری انصاف فراہم کرتے۔بھنڈرانوالے نے کبھی خالصتان کا مطالبہ نہ کیا مگر انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اگر کوئی سکھوں کو خالصتان دینا چاہے تو وہ انکار نہیں کریں گے جیسے ہندوستان کی تقسیم کے وقت شرومنی اکالی دل والوں نے انکار کیا تھا۔ سکھ اب وہ غلطی کبھی دہرائیں گے نہیں۔ یہ وہ فکری زاویہ تھا جو آج کے سکھ اختیار کئیے ہوئے ہیں۔ موجودہ جتھیدار ہرپریت سنگھ نے بھی یہی جواب دیا جب ان سے اخباری نمائندوں نے خالصتان کے بارے میں سوال کیا۔ ساکا جون چوراسی یا آپریشن بلیو سٹار یا ساکا نیلا تارا دو سے چھ جون تک جاری رہااس میں دربار صاحب امرتسر اکال تخت صاحب کی بے حرمتی کی گئی اور سکھوں کے مقدس ترین مقام کو بموں اور گولیوں سے چھلنی چھلنی کر دیا گیا۔ اندرا گاندھی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مکمل تائید حاصل تھی۔ اس ظلم کے اثرات کبھی زائل نہیں ہوں گے کیونکہ اس واقعہ میں صرف بھارتی حکومت اور فوج کی وحشت و بربریت نظر آتی ہے۔ اس واقعہ کے بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا اور اس کے رد عمل میں پورے ہندوستان میں بسنے والے سکھوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جہاں کوئی سکھ بچہ، عورت، مرد اور بوڑھا ملا قتل کر دیا گیا۔ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور انکی عورتوں کے ساتھ بد تمیزی کی سلوک کیا گیا۔مگر سکھوں نے اپنی حریت کی تاریخ کو شرمسار نہ کیا اور جنرل کے ایس ویدیا پر قاتلانہ حملہ کیا، پنجاب گورنر جے ایف رویرو پر حملہ جالندھر میں ہوا مگر بچ گیا، جگت نارین چیف اڈیٹر ہند سما چار گروپ آف پبلی کیشن ، کوجالندھر کو مار دیا گیا۔ جگبانی اور دوسری اخبارات نے ہمیشہ کانگرس کا ساتھ دیا اور سکھوں کو بھارت کا دشمن اور غدار بنا کر پیش کیا۔ڈی ایس پی ترسیم سنگھ کو آپریشن سے پہلے مار دیا گیاتھا جو سکھ قوم کے ساتھ غداری کر رہا تھا۔کلدیپ سنگھ براڑ آپریشن میں فوج کا کمانڈر تھا اس پر لندن میں چند سال پہلے حملہ ہوا مگر وہ بچ گیا۔جتھیدار کرپال سنگھ اکال تخت نے بیان دیا کہاس نے سکھوں کے خلاف بیان خود سے نہیں دیا تھا بلکہ فوجیوں نے کنپٹی پر پستول تان کر بیان لیا کہ اکال تخت کو کوئی نقصان نہیں ہوا حالانکہ اکال تخت صاحب کو تو تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سکھ قوم کے لئیے نہ ختم ہونے والا عذاب شروع ہوا فوج اور پولیس نے سکھ جوانوں کو چن چن کر مارنا شروع کر دیا۔ پولیس والے بے گناہ سکھ نوجوانوں کو گائوں سے باہرلے جاتے اور دوسرے دن ان کی لاشیں نہر سے ملتیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہوئے کہ پیسے لے کر پولیس گرفتار سکھ جوانوں کو چھوڑ بھی دیتے اور کئییوں کو قتل کر دیتی۔ لاقانونیت کا وہ بازار گرم تھا کہ کسی کو روتی مائوں کے آنسووں کا درد نہ تھا۔سکھ پولیس والے اپنے ہی لوگوں کو قتل کر کے اور کسی کو چھوڑ کر دولت کمارہے تھے۔ پولیس کو ترقی دینے کے لئیے سکھ نوجوانوں کی لاشوں کی تعداد ظاہر کرنا تھی۔باقاعدہ فارمولا طے ہوا کہ کتنے سکھ جوانوں کو مارو گے تو حوالدار بنو گے کتنے سکھج مارو گے تو تھانیدار بنو گے۔ ترقی کا یہ معیار دنیا میں صرف بھارتی پنجاب میں تھا اور تاریخ میں ایسا ہلاکو خان یا چنگیز خان نے بھی نہ کیا تھا۔ حکومتی لوگ اور پولیس والے سکھوں کو بدنام کرنے کے لئیے ہندئووں پر حملے کرتے تاکہ سکھ تحریک کو بدنام کیا جائے۔خاص نشانہ اکالیوںاور کامریڈ تھے ان کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آنے والی سکھ نسلوں کو تباہ کئے بغیر بھارت ہندو راشٹر قائم نہیں کر سکتا اس لئے پنجاب کے سکولوں میں نشہ اور سماج میں منشیات کو رواج دیا گیا تاکہ آنے والی نسل کو تباہ کیا جائے۔ اس دھندے سے بادل خاندان نے بہت کمائی کی اور پنجاب کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سکھ انگریزوں کے پنجاب پر قبضہ کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر گئے اب بھارتی فوج اور پنجاب پولیس کے قتل عام نے کئی سکھوں کو دوسرے ممالک ہجرت پر مجبور کر دیا اور وہ کینیڈا ، امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن پر آج بھی بھارت میں داخلے پر پابندی ہے۔ وہ پاکستان آتے ہیں مگر چند میلوں پر ان کا گھر ہے مگر وہ اپنے گھر نہیں جا سکتے۔ قسمت نے ایسا بے گھر کیا کہ آج تک بے گھر ہی چلے آ رہے ہیں۔جس قوم کے رہنما اور افسران اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قومی غیرت کو خیرباد کہ دیتے ہیں وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس وقت سکھ قوم بھارت سے باہر بسے ہوئے سکھوں اور گوردوارہ اور دھرم کی انسان دوستی کے سہارے زندہ ہیں ورنہ جتنے ظلم ان پر ہوئے ان کا وجود بھی خطرے میں تھا۔
آپریشن بلیوسٹار اور بھارتی پنجاب
Jun 11, 2021