اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مالی سال2021-22ء کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا۔ بجٹ میں مالی خسارہ کا تخمینہ جی ڈی پی کے ساڑھے چھ فی صد کا مساوی لگایا گیا ہے۔ اس طرح بجٹ کا خسارہ ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے زائد ہو گا۔ بجٹ کا حجم 8ٹریلین روپے سے زائد رہنے کی توقع ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بجٹ کے اندر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، جو دس سے پندرہ فی صد تک ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پنشن ٹیکس کی تجویز دی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا ہے اور بجٹ میں پنشن کو ٹیکس نہیں کیا جا رہا۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے۔ جبکہ اس سے قبل وزیر اعظم کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ بجٹ میں ایف بی آر کے لئے ریونیو کا ہدف5.8ٹریلین روپے مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے بجٹ ٹیکس فری ہو گا تاہم ریونیو کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے نئے ریونیو اقدامات یقینی ہیں جو ردوبدل کے نام پر کئے جائیں گے۔ بجٹ کی دستاویزات سینٹ میں بھی رکھی جائیں گی۔ ایوان ان پر14روز میں اپنی سفارشات قومی اسمبلی کا ارسال کرے گا۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے900ارب روپے مختص کر دئیے گئے۔ بجٹ میں خام مال کی درآمد اور صنعتوں کو چلانے کے لئے ڈیوٹی کی مراعات دی جا رہی۔ برآمدی زیرو ریٹ رجیم کو بحال کئے جانے کا امکان ہے۔ کیپٹل گین ٹیکس کے ریٹ میں کمی کی جا رہی۔ آئی ٹی سیکٹر کو بھی مراعات دی جائیں گی۔ متعدد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دئیے جائیں گے۔ نان فائلرز کے لئے سخت اقدامات بجٹ کا حصہ ہوں گے۔ آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ رواں مالی سال کی نسبت 38 فیصد زیادہ رکھنے کی تجویز ہے۔ بجلی ترسیلی منصوبوں پر 100 ارب روپے خرچ کرنے کی تجویز ہے۔ دیامر بھاشا، داسو اور مہمند ڈیمز کے منصوبوں پر 84 ارب 50 کروڑ خرچ کیے جانے کی تجویز ہے۔ کے فور، نئی گاج ڈیم، رینی کینال اور سندھ میں چھوٹے ڈیموں پر 25 ارب روپے خرچ کرنے کی تجویز ہے۔ سکھر حیدرآباد موٹروے اور خیبر پاس اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے 13 ارب روپے رکھنے کی تجویز، نئے مالی سال میں 244 ارب روپے موٹرویز، ہائی ویز، ایئرپورٹس اور ریلوے منصوبوں پر خرچ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے مزید کسٹمز ڈیوٹی کو کم کرنے کے لیے تجاویز کا ایک حصہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ حکومت ٹیکسٹائل کی صنعت اور بالخصوص کپڑے پر شرح کو کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سٹیل کے شعبے کے لیے بھی خام مال پر ڈیوٹی کم کرسکتی ہے۔ ویلیو ایڈڈ سیکٹر کے لیے پیکج دیا جا رہا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعارف کرائی گئی 140 ارب روپے کی کارپوریٹ چھوٹ کو اب فنانس بل 2021 کا حصہ بنایا جائے گا۔ 70 ہزار بڑے ریٹیلرز کی فروخت کو پوائنٹ آف سیلز کے تحت لانے کی تجویز ہے۔ ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی دستاویزات پر لانے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔ کھانے، صحت اور تعلیم سے متعلق اشیاء پر چھوٹ واپس نہیں لے گی۔
ساڑے 3ہزار ارب روپے خسارے کا بجٹ آج، ترقیاتی منصوبوں کیلئے900ارب
Jun 11, 2021