ماحول اوردرخت

بارش کی پہلی بوندوں سے پیدا ہونے والی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک اور نئے نوٹوں کی خوشبو سے پیار کرنے والے نہایت پیارے شاعر ادیب و مصنف جناب فیضان عارف کا تعلق بہاول پور کی ادب و ثقافت خیز، فرید دھرتی سے ہے ۔ وہ ایک مدت سے خطہِ فرنگ میں آباد ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمیشہ شاد رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک منفرد اچھوتی تحریر سے امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ اور حالیہ کیفیت پر قلم طرازی کی ہے جس کے چند اقتباسات تبرک کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
امام غزالی ؒ 53سال زندہ رہے۔تصوف، قانون، فقہ اور فلسفے کے موضوعات پر  70 سے زائد کتابیں لکھیں ۔ ابن رشد نے 73برس کی عمر پائی۔ان کی تصانیف کی کم سے کم تعداد 67ہے جن میں سے اٹھائس فلسفے سے متعلق ہیں۔ 20 کا موضوع طب ہے۔ 8قانون پر ہیں۔ 6 میں الحیات پر بحث کی گئی ہے اور 4 کتابیں زبان و بیان کی ہیں۔ بو علی سینا 980ء میں پیدا ہوئے 57برس عمر پائی  اور 1037ء میں وفات پائی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے 450کاموں  میں سے ڈیڑھ سو فلسفے اور چالیس طب سے متعلق ہیں۔ ان کی کتاب الشفاء کی اٹھارہ جلدیں ہیں۔ابن الہیثم کو 75برس زندگی ملی۔ اس زندگی میں انہوں نے 45 کتابیں لکھیں۔ان کے موضوعات تھے طب، فلسفہ، الحیات، فلکیات، ریاضی، طبیعات اور نہ جانے کیا کیا۔البیرونی کی عمر 77برس رہی۔ ان کی جو تصانیف ہم تک پہنچیں وہ تعداد میں کم از کم 14ہیں جن میں سے کچھ خاصی ضخیم ہیں۔ آپ تاریخ دان ور ماہر لسانیات تھے اور ساتھ ساتھ آپ نے طبیعات،ریاضی اور فلکیات پر بھی کام کیا۔ ابن باجۃ نے فقط 42 سال کی عمر پائی۔ اس مختصر عرصے میں انہوں نے منطق، فلسفہ، ریاضی مابعد الطبیعات اور اخلاقیات پر درجن بھر سے زائد کتب لکھیں۔ ان کا کام آکسفورڈ، برلن، تاشقند، استنبول، انقرہ اور قاہرہ کے کتب خانوں میں محفوظ ہے۔الکندی نے قریباً 70برس عمر پائی   ان کے مخطوطات کی تعداد 200سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں فلسفہ، نجوم، فلکیات، موسیقی، ریاضی، سیاست، طبیعات وغیرہ شامل ہیں مگر جو کتابیں مطبوعہ صورت میں موجود ہیں ان کی تعداد8 ہے۔یہ فہرست مزید طویل کی جا سکتی ہے مگر فی الحال ہم ان مسلم مفکرین کاتذکرہ  یہیں چھوڑتے ہیں کہ یہ عظیم لوگ تھے۔ علم ہی ان کا اوڑھنا ، بچھونا تھا۔ انہیں پڑھنے لکھنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں تھا۔یہ صبح اُتھتے تھے اور پھر نان اسٹاپ رات تک کتابوں میں غرق رہتے تھے۔ قلم ان کے ہاتھ میں ہوتاجس سے لکھ لکھ کر انہوں نے ڈھیر لگا دیا۔ آ ج کے دور کی طرح ان کا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہ تھا  اور نہ  وہ بذریعہ ای میل کسی سے رابطے میں  رہتے تھے ۔  انہیں سوائے علم حاصل کرنے اور پھیلانے کے دوسرا کوئی اور کام نہ تھا۔
سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہم نے کبھی اپنی حالت پر غور نہیں کیا کہ  ہمیں جس تباہی اور ذلت و رسوائی کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے ۔ علم کو اگر کسی سند یا سرٹیفکیٹ سے منسلک کر دیا جائے تو مزید بربادی کیونکہ علم محض ان کاغذی رسیدوں کا نام تو ہر گز نہیں۔ علم تو اس عرفان کا نام ہے جو بندے سے بندے کا رشتہ، تعلق، اخلاق و ہمدردی اور بھلائی کے مدارج طے کرتا ہوا بندوں کے خدا سے جا ملتا ہے۔ اس سوال کا دوسرا جوابی رُخ یہ ہے کہ علم ، عمل کے بغیر ادھورا بلکہ بیکار ہے مگر اس سے پہلے علم کو سمجھنا اور خوب جاننا ہو گا ۔ پھر عمل کا مرحلہ آئے گا اور یہ مرحلہ بھی اگر اخلاص سے خالی ہواتو سب کا سب نادارد۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب کوئی کافر نہیں بلکہ ہم خود ہیں کہ ہم نے کتاب حکمت کو محض جھوٹی قسمیں کھانے اور غلاف چڑھا کر بیٹیوں کی رخصتی کے وقت سر پہ سایہ کرنے کیلئے رکھا ہوا ہے۔ چلیں ایسا بھی کر لیں لیکن اگر اسے پڑھا نہیں، سمجھا نہیں اور عمل نہیں کیا تو یہ کسی کام نہیں آئے گا۔ نادان اور بے وقوفی کے درمیان نہایت حنیف سا فاصلہ ہے۔ خیر! ہم تو ان مدارج سے بھی بہت آگے نکل کر مقام بے حسی و بے شرمی پر فائزہیں۔ ہم حد درجہ کے بے حس ہو چکے ہیں۔ ہماری جہالت آمیز فیاضی فکر کی ایک تصویر ملاحظہ کریں۔ ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک شاندار منصوبہ ہے اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔ راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا ان سب کے ساتھ ایک گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟ تودونوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا تو  ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔ دیکھا رحیم بخش آگیا یقین تجھے میری بات پر ۔ میں نہ کہتا تھا کہ ہماری قوم کی کسی کو فکر نہیں۔سب کو گدھے کا خیال آتا ہے۔ہماری سادہ دلی پہ شاعر رقم طراز ہوئے تھے کہنے لگے کہ 
 فی الحال ہماری سادہ دلی تعزیر کے قابل ٹھہری
کچھ اور جنوں بڑھ جانے پر، بدنام نجانے کتنے ہوں
ہم تو وہ سادہ دل ہیں جو بدنام ہونے پر بھی نام پیدا کرنے پر اطمینان رکھتے ہیں۔خیر! دل بہت جل اُٹھا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جلے دل سے کئی اور چراغ جل اُٹھیں۔ بس اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہر چیز آپ کے ہاتھوں میں سے نکل رہی ہے اور حالات موافق نہیں رہے تو ایک دفعہ درخت کے بارے میں ضرور سوچیے جو کہ ایک ایک کر کے اپنے تمام پتے کھو دیتا ہے لیکن پھر بھی کھڑا رہتا ہے۔ اس امید پر کہ بہار کے دن آئیں گے۔ وقت کروٹ بدل رہا ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والے نئے منظر بتا رہے رہیں کہ ماحول اور ماحولیات کا وژن پروان چڑھے گا۔ لمحے کی دیر ہے پر اندھیر نہیں۔ ہمارے درمیان کئی مومن بے تیغ لڑ رہے ہیں اور اُن کے عمل کی برکت سے رب کا فیض جاری ہے ۔ آپ بھی مانند  کی درخت اپنی مٹی نہ چھوڑیں جس طرح فیضان عارف نے مٹی کا حق ادا کرنے کیلئے قلم اُٹھا رکھا ہے آپ بھی اپنے قلم یا عمل کے ذریعہ اپنا حصہ ادا کرتے رہیں۔

ای پیپر دی نیشن