اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نامہ نگار) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کیلئے 95کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا جس کے مطابق کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے، قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے، پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کیلئے 800ارب روپے، ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار 523ارب روپے، سبسڈیز کیلئے 699ارب روپے، گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 242 ارب روپے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 364ارب روپے، ماحولیاتی تبدیلی کیلئے 10ارب روپے، بجلی کے شعبے کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر سکالرشپ دی جائے گی، تعلیم کیلئے 109ارب روپے خرچ ہونگے، تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی حد بارہ لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے،40ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2ہزار روپے دئیے جائیں گے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ، 1600سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا، سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس عائد ہو گا، 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے،ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے ،خیراتی ہسپتال کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔ زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ،سگریٹ پر ٹیکس 150 ارب سے 200 ارب روپے اکٹھا کرنے ،آئندہ مالی سال برآمدات کا تخمینہ 35 ارب ڈالر، برآمدات کا تخمینہ 31 ارب ڈالر کرنے ، مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد کرنے کا ہدف مقرر،کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کی غیر ملکی ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس ،نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح 100 سے 200 فیصد کرنے کی تجویز دے دی گئی ،یوتھ روزگار سکیم کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ مواقع، آسان شرائط پر قرضوں فراہم کئے جائینگے ،ایکسپورٹرز کے تمام واجبات جو سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 40 ارب کے ہیں،رواں ماہ ادا کئے جائیں گے ،کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائیگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی،فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ، ایک ارب کی سالانہ لاگت سے 'بائڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم ، فنکاروں کے لئے میدیکل انشورنس پالیسی شروع کی جائے گی،فلم، ڈراموں کیلئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے 5 سال کا استثنیٰ ،آبی وسائل کیلئے بڑے ڈیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت دینے، لیپ ٹاپ فراہم کرنے، آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے،فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ ایک فیصد شرح سے بڑھا کر 2 فیصد ،نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کیلئے پراپرٹی کے خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے اور تمام افراد بشمول کمپنیز اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن 300 ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی ،30 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل انگیریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیاجبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کو گزشتہ پونے چار سال کی بری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے، گزشتہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا اور اس دوران معاشی بدانتظامی عروج پر رہی جس کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی، ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن سے معیشت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا، غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے، جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں، ایسی اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کرسکتے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں نمبر 3 پر ہے، ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان میں دو کروڑ کا اضافہ گزشتہ پونے 4 سال میں ہوا جب کہ اسی دوران ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اپنی پونے 4 سال کی مدت میں سابقہ حکومت نے 20ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف سمیت تمام وزرائے اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لیے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ا?مدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے 4 بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کیے، ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8عشاریہ 6 فیصد کے قریب رہا، اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا اور رواں مالی سال میں پانچ ہزار 100ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔انہوںنے کہاکہ اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ ایک ہزار 62ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں ا?یا ہے جو مارچ 22-2021 میں ایک ہزار 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے پیش نظر غریب طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا، 40 ہزار روپے ماہانہ کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستانی کرنسی میں استحکام نظر آیا مگر پھر معاشی بد انتظامی کی بنا پر 2018 سے 2022 کے درمیان روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، روپے کے مقابلے میں ڈالر 115 روپے سے 189 تک پہنچ گیا اور آفر شاکس کی وجہ سے 200 کی حد بھی پار کرگیا، ہم نے کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سے ریلیف دیا جائے، اس مقصد کے لیے امداد اور سبسڈی کے اقدامات کیے ہیں، اس مقصد کے لیے امیر لوگوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ زرعی پیداوار میں اضافہ کریں گے، صنعتوں کو ترقی دیں گے، برآمدات میں اضافہ کریں گے جس سے زر مبادلہ حاصل ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے محصولات کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والے محصولات کے انتظام و انصرام کو بہتر بنایا جائے گا، کفایت شعاری حکومت کی ترجیح ہے، حکومتی اخراجات میں کمی اس بجٹ کا حصہ ہے، گاڑیوں، فرنیچر پر پابندی ہوگی، کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائیگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پینشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے، ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے نظام وضع کیا ہے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بغیر معاشی ترقی حاصل کرنا چیلنج ہے، اگلے سال توازن کو خراب کیے بغیر کم از کم 5 فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی، اس طرح جی ڈٰی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78 عشاریہ 3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت افراط زر 11.7 فیصد ہے جو کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں سب سے بلند سطح پر ہے، اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے گیارہ عشاریہ پانچ فیصد پر لایا جائیگا۔انہوںنے کہاکہ ایمرجنگ مارکیٹ ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہے مگر پاکستان میں یہ شرح 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9عشاریہ 2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے، 2017،18 میں یہ 11 عشاریہ ایک فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال جی ڈی پی کا مجموعی خسارہ 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی کی جائے گی، اگلے سال میں کمی لا کر 4 عشاریہ 9فیصد تک کیا جائیگا، اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس جو جی ڈی پی کا منفی 2 عشاریہ 4 فیصد ہے اس میں بہتری لا کر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت صفر عشاریہ انیس فیصد پر لایا جائے گا ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، درآمدات اس وقت 76 ارب ڈالر کی متوقع ہیں، اگلے سال ان میں کمی 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی، برآمدات اس وقت 31 عشاریہ 3 ارب ڈالر ہیں، اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے، کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو جی ڈٰی پی کے منفی 4 عشاریہ ایک فیصد سے گھٹا کر الگے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2۔2 فیصد پر لایا جائیگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں سال ترسیلات زر 31 عشاریہ ایک ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔ انہوںنے کہاکہ اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33 عشاریہ 2فیصد ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال سود کی ادائیگی میں کل 3، 144 ارب روپے ہوں گے جس میں مقامی سود کی ادائیگی 2,770 ارب روپے بیرونی سود کی ادائیگی 373 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جب کہ اگلے سال اس مد میں کل ادائیگی 3 ہزار 950 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جس میں سے 3ہزار 439 ارب اندرونی اور 511 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ عوامی قرض جو کہ 18-2017 میں 25ہزار ارب روپے تھا، مارچ 2022 میں 44 ہزار 365 ارب روپے تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 72 عشاریہ 5فیصد ہے، ہم نے مالی سال کے آخری دو ماہ میں اخراجات میں کمی کے ذریعے قرض میں اضافے کی رفتار کو کم کیا ہے، قانون کے مطابق حکومت کے قرض لینے کی حد جی ڈی پی کا 60 فیصد مقرر کی گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ رواں مالی سال ایف بی آر ریونیو 6 ہزار ارب، صوبوں کا حصہ 3ہزار 512 ارب جبکہ وفاق کی خالص آمدنی 3 ہزار 803 ارب روپے رہی۔وفاقی حکومت کی نان ٹیکس آمدنی ایک ہزار 315 ارب جبکہ کْل اخراجات 9 ہزار 118 ارب ہوں گے،پبلک سروس ڈیولپمنٹ پرگرام پر اخراجات 5 سو 50 ارب ہوں گے،ڈیٹ سروسنگ کی مد میں 3 ہزار 144 ارب خرچ ہونگے،دفاع پر1ہزار 450 ارب اخراجات آئیں گے، وفاقی حکومت کے اخراجات 5 سو 30 ارب ہوں گے،پنشن پر 5 سو 25 ارب کے اخراجات ہوں گے،سبسڈیز کی مد میں 1 ہزار 515 ارب جبکہ گرانٹ کی مد میں 1 ہزار 90 ارب خرچ ہوئے۔بجٹ 2022-23 کے اہداف کے مطابق ایف بی آر کا تخمینہ 7 ہزار 4 ارب لگایا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 4 ہزار 100 ارب ہو گا،وفاق کی خالص آمدنی 4 ہزار 904 ارب روپے ہوگی جس میں 2 ہزار ارب کی نان ٹیکس آمدنی بھی شامل ہے،وفاقی بجٹ کے کْل حجم کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے،ڈیٹ سروسنگ پر 3 ہزار 950 ارب کے اخراجات ہوں گے،پبلک سروس ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 8 سو ارب کی رقم مختص کی گئی ہے،دفاع کیلئے 1 ہزار 523 روپے مختص کئے گیے ہیں،سول انتظامیہ کے اخرجات کے لیے 5 سو 50 ارب رکھے گئے ہیں،پنشن کے لیے 5 سو 30 ارب مختص کئے گئے ہیں،ٹارگیٹد سبسڈیز کے لئے 6 سو 99 ارب روپے مختص،گرانٹ کے لئے ایک ہزار 242 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور دیگر محکموں کی گرانٹس شامل ہیں۔انہوںنے بتایاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی) کیلئے 23-2022 میں بڑھا کر 364 ارب روپے مختص، جو 22-2021 میں 2 سو 50 ارب روپے تھی،بی اذئی ایس پی کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کیش ٹرانسفر کے تحت 2 سو 66 ارب مختص، بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام ایک کروڑ بچوں تک بڑھانے کے لیے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 10 ہزار طلبہ کو بے نظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن پر سبسڈی کے لیے 12 ارب روپے مختص جبکہ رمضان پیکیج کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں صنعت و تجارت کی توانائی کے لیے 570 ارب روپے رکھے گئے ہیں،پیٹرولیم کے شعبے کے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے 71 ارب روپے مہیا کئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کیشن ( ایچ ای سی ) کے لئے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، ایچ ای سی کے ترقیاتی اسکمیوں کے لئے 44 ارب روپے علیحدہ رکھے گئے ہیں۔۔ایچ ای سی کے بجٹ میں بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع کے 5 ہزار وظائف شامل ہیں، طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر فراہم کریں گے، فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے 21 ارب روپے مختص کئے ہیں۔یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی' کے تحت 20 لاکھ نوجوانوں کو روزگار کے مواقعوں تک رسائی یقینی بنائی جائے گی، کاروبار کے فروغ کے لئے نوجوانوں کو 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیے جائیں گے، کاروبار کے فروغ کے لئے نوجوانوں کو ڈھائی کروڑ تک آسان شرائط پر قرضے دیے جانے کی اسکیم کا اجرا کریں گے، قرضہ اسکیم میں 25 فیصد خواتین کا کوٹہ مختص کیا گیا جبکہ خواتین کو ہائی ٹیک اور دیگر اسکلز کے ساتھ یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے،250 منی اسپورٹس اسٹیڈیم بنائے جائیں گے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جناب اسپیکر صنعت کسی بھی ملک کے لیے نہایت ضروری ہے اور لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنتی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے صنعتی پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ برآمدکنندگان کو ڈی ایل ٹی ایل کے تمام کلیم فوری ادا کیے جائیں گے، مرکزی بینک آف پاکستان کے تصدیق شدہ 40.5 ارب روپے واجب الادا ہیں جبکہ صنعت کاروں کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے لیے لوڈشیڈنگ سے استثنٰی دیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ چائنا پاکستان اقتصادی راہدری پر 9 خصوصی اکنامک زون بنائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو کارخانے لگانے کی سہولت فراہم کی جائے گی، گزشتہ حکومت نے اس کام کی رفتار میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور اب تک ایک بھی خصوصی اکنامک زون فعال نہیں ہوسکا۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جانب اسکیم اگلے مالی سال کے لیے 8 سو ارب روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھے گئے ہیں، ہم نے 2017-18 میں وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار روب روپے چھوڑا تھا جو موجودہ حکومت نے تقریباً آدھا کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جاری منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دیں گے تاکہ ان پر لگائی گئی رقمیں ضائع نہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی تاکہ بلوچستان ملک کے باقی حصوں کے برابر لایا جاسکے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبوں خصوصی علاقہ جات (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لئے پی ایس ڈی پی میں ایک سو 36 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ڈیم اور دیا میر بھاشا ڈیم کو وقت سے قبل مکمل کرنے کے لئے اضافی رقوم مختص کی گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چین کی سرحد سے دونوں بندرگاہوں کو ملانے والی شاہروں کو مکمل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت انفرااسکٹرچر اور اقتصادی زونز کے منصوبوں میں تیزی لا کر ترقی کی رفتار بڑھانے اور برا?مدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 3 سو 95 ارب روپے انفراسٹرکچر کے لئے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توانائی / بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانا حکومت کی ترجیح ہے، بجلی کے شعبے کے لیے 73 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی جس میں سے 12 ارب روپے مہمند ڈیم کی جلد تکیمل کے لیے خرچ کئے جائیں گے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آبی وسائل کے لئے بڑے ڈئیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کاہکہ چھوٹے ڈیموںِ نکاسی آب کی اسکمیوں، توانائی اور آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے ایک سو 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لئے 2 سو 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ حکومتی سرمایہ کاری کے علاوہ اہم شاہراہوں کی تعمیر کے لئے غیر سرکاری سرمایہ بھی استعمال کررہے ہیں، نجی شعبے کے اشتراک سے شاہراہیں تعمیر کرنے کو مزید فروغ دیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ایس ڈی جیز کے اہداف اور عوام کی زندگی آسان بنانے کے لئے 70 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، اس کے علاوہ دیگر اسکیموں کے لئے 40 ارب رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جاری منصوبوں کے تکمیہل اور اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لئے 51 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ عوام کو صحت کی بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مشکل وقت میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں شجرکاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں تربیت دینے، لیپ ٹاپ فراہم کرنے، آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زارعت اور تحفظِ خوراک کے لئے زرعی شعبے میں جدید مشینوں کا استعمال بڑھانے، لیزر سے زمین ہموار کرنے، آبپاشی میں جدت لانے، معیاری بیجوں کی فراہمی اور زرعی پیداوار کی برآمدات کے لئے 11 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ خصوصی اکنامک زونز میں انفرااسٹرکچر، برآمدات، مؤثر مارکیٹنگ، معدنیات کے شعبے اور انڈسٹری کے دیگر شعبہ جات کے لئے سرمایہ کاری کے لئے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اس سال ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصول ی ہیں جن میںبراہ راست ٹیکس یعنی انکم ٹیکس اور کیپٹل ویلیو ٹیکس پر زیادہ انحصار کرنا، غیر پیدواری اثاثہ جات پر ٹیکس کا نفاذ 3۔ پروگریسو ٹیکس کا فروغ 4. پیداواری اثاثہ جات کی حفاظت ،صاحب ثروت افراد پر ٹیکس شامل ہیں ۔ہماری ترجیحات میں وودہولڈنگ ٹیکس کی تعداد کو کم کرنا ، فائنل ٹیکس کو کم از کم ٹیکس میں تبدیل کرنا اور کم از کم ٹیکس کو ایڈجسٹبل ٹیکس میں بدلنا ہے۔بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانی کے ازالے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز،کاروباری افراد اور اے او پیز کے لیے چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز،بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹس، پینشنرز بینیفٹ اکائونٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکائونٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ،چھوٹے ریٹیلرز کے لیے فکسڈ انکم اینڈ سیلز ٹیکس کا نظام تجویز کیا گیا جس میں 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک ٹیکس کی وصولی بجلی کے بلوں کے ساتھ کی جائے گی، اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایف بی آر کوئی سوال پوچھنے کا مجاز نہیں ہوگا۔صنعتی اداروں اور دیگر کاروباروں کو پہلے سال میں اِنیشل ڈیپریسئیشن کی مد میں 100 فیصد ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی ،درآمد کے وقت صنعتی اداروں سے حاصل ہونے والے تمام ٹیکسوں کو ایڈجسٹ ایبل قرارر دینے کی تجویز دی گئی ۔وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد پاکستان میں موجود ہے اور اس کی مالیت 25 ملین روپے سے زائد ہو اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر فرضی آمدن/کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد کی شرح موثر ہوگی، تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔پا ،فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ ایک فیصد شرح سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ۔ بجٹ میں نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے پراپرٹی کے خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے ،تمام افراد بشمول کمپنیز اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن 300 ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے ،1600 سی سی سے زائد کے موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے دی گئی ،الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا،نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا،بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس (جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے) کی موجودہ شرح 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی پاکستان کا کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے ملک کا ٹیکس ریذیڈنٹ نہیں ہے اسے پاکستان کا ٹیکس ریذیڈنٹ سمجھے جانے کی تجویز دی گئی ،کریڈٹ، ڈیبیٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے ایک فیصد اور نان فائلرز افراد کے لیے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائے گا، تاہم یہ ٹیکس واجب الادا ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ ایبل ہوگا،اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی میں ان لینڈ ریونیو کا ایف بی آر کے مجموعی ٹیکس محصولات میں صحت مند اضافہ،سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ،200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے،ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے کی تجویز دی گئی ،خیراتی ہسپتال کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سممیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویزنئے میکانزم کے تحت ٹیکس دہندگان اے ڈی آر سی میں اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے نامزد کرسکتے ہیں، دوسرا نمائندہ ایف بی آر کا افسر اور تیسرا نمائندہ ٹیکس پیئر اور ایف بی آر کی باہمی رضامندی سے ہوگا، اس میکانزم کی بدولت 3 میں سے 2 ممبران ٹیکس دہندگان کی مرضی سے نامزد ہوں گے۔زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جس میں آبپاشی، نکاسی آب، کاشتکاری، فصلوں کی کٹائی اور اس کی پراسیسنگ، گرین ہائوس فارمنگ اور پودوں کو محفوظ بنانے کے آلات شامل ہیں،دیگر زرعی صنعتوں کے ساز وسامان، مشینری اور زرعی شعبے پر قائم صنعتوں کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ مختلف مینوفیکچرنگ سیکٹرز سے متعلق تقریباً 400 ٹیرف ہیڈنگز پر کسٹمز ڈیوٹی، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیرٹی ڈیوٹی کو ریشنلائز کیا گیا ہے،مصنوعی دھاگے پر ٹیرف کا ڈھانچہ ریشنلائز کیا گیا ہے،30 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل انگیریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیا، فرسٹ ایڈ بینڈیجز بنانے والی صنعت کے خام مال کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے مزید استثنیٰ دیا گیا ہے، بجٹ تقریر کے بعد مفتاح اسمٰعیل نے ایوان میں فنانس بل 2022 پیش کیا۔ وزیر خزانہ کی جانب سے فنانس بل پیش کیے جانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی 13 جون بروز پیر سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ میں 355ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات کیے گئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ 267ارب کے ریونیو اقدامات ہوئے سیلز ٹیکس میں 60ارب کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 28ارب کے نئے ریونیو اقدامات کیے گئے ہیں، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 6ارب سیلز ٹیکس کی مد میں 30ارب اور انکم ٹیکس کی مد میں 49ارب روپے کے ریلیف اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کے دو ٹیر ہیں پہلے ٹیر پر اس وقت 52سو فی ہزار سیگریٹ ڈیوٹی تھی جسے بڑھا کر 56سو فی ہزار سیگریٹ کردیا گیا ہے اس سے فی سیگریٹ کی قیمت میں 40پیسے فی سیگریٹ قیمت میں اضافہ ہوگا جبکہ دوسرے ٹیر میں 20پیسے فی سیگریٹ ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھایا گیا ہے۔ ہوائی جہاز سے کلب بزنس اور فرسٹ کلاس میں سفر پر 10ہزار روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ ہے جسے بڑھا کر 50ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ کمپریسر سکریپ، کاپر کاٹنگ سکریپ سمیت مختلف قسم کے سکریب پر جی ایس ٹی کی شرح صفر تھی بڑھا کر تین فیصد کردیا گیا ہے، بینکوں کی آمدن پر ٹیکس 39فیصد سے بڑھا کر 42فیصد کردیا گیا ہے، ایسے افراد جن کی سالانہ آمدن 30کروڑ سے زیادہ ہے ان پر دو فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے جو ان کو معمول کے ٹیکس کے علاوہ ادا کرنا ہوگا، انکم ٹیکس کی مد میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کے لیے ٹیکس سے چھوٹ کی حد 6لاکھ سے بڑھا کر 12لاکھ کردی گئی ہے تاہم ریٹرن جمع کروانے کی حوصلہ افزائی کے لئے چھ سے بارہ لاکھ روپے آمدن کے افراد کو صرف100 روپے سالانہ ٹیکس دینا ہوگیا ان کے لیے انکم ٹیکس کی سلیب بارہ سے کم کرکے سات کردی گئی ہے جبکہ کاروباری افراد کے لیے بھی ٹیکس کی چھوٹ 4لاکھ سے بڑھا کر 6لاکھ کردیا گیا ہے انکم ٹیکس کے لائ میں ایک اورتبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت ٹیکس گزار کا آڈٹ چار سال میں صرف ایک بار ہو سکے گا ، بہبود سرٹیفیکیٹ پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کرکے 5فیصد کردیا گیا ہے، آئی ٹی سیکٹر میں بھی ایک اہم تبدیلی کرکے ٹیکس کی شرح کو 0.25فیصد کردیا گیا ہے تاہم اس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کو پاکستان سافٹ وئیر ٹیکنالوجی بورڈ سے اپنی برآمد کی تصدیق کرنا ہوگی ، پلاٹوں کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کے لیے ذاتی استعمال کے علاوہ غیر استعمال شدہ پراپرٹی لگژری فارم ہائوسز، پر ایک فیصد کے حساب سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور غیر استعمال پراپرٹی کا تعین ایف بی آر کی مقرر کردہ پرائس کی بنیاد پر ہوگا ،اس سے چالیس ارب روپے ایف بی آر کو ریونیو ملے گا، پراپرٹی پر کیپٹل گین ٹیکس کے حوالے سے بھی ردو بدل کیا گیاہے اس قبل چار سال تک غیر منقولہ جائیداد اپنی ملکیت میں رکھنے کے بعد اس کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس صفر تھا ،اب یہ معیاد چار سال سے بڑھا کر چھ سال کردی گئی ہے پہلے سال پراپرٹی کی فروخت پر 15 فیصد دوسال بعد 12.5فیصد اور 30سال کے بعد فروخت کرنے پر 10فیصد اور چھ سال کے بعد یہ صفر ہوجائے گا ، تاہم اگر اس کھلے پلاٹ پر گھر بنالیا جائے تو چار سال کے بعد کیپٹل گین ٹیکس سے چھوٹ مل جائے گی اوربلند فلیٹ بنانے کی صورت میں سی جی ٹی سے چھوٹ مل جائے گی ایک اور اہم تبدیلی کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کی دوسرے ملک میں غیر منقولہ اور من قولہ پر ایک فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے اس سے 8ارب روپے ریونیو ملنے کی توقع ہے ، 16 سو سی سی اور اس سے زائد قوت کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر ایڈوانس ا نکم ٹیکس ڈبل کردیا گیا ہے ، کمرشل امپوٹرز کیطرف سے رہ مٹریل منگوانے پر ٹیکس دو سے چار فیصد کر دیا گیا ہے اس سے سترہ ارب روپے کا ریونیو ملے گا ،چھوٹے تاجروں کے لیے فیکس انکم ٹیکس سکیم متعارف کرائی گئی ہے بجلی کی بل کی رقم کے سلب بنائے گئے اور اس پر انکم ٹیکس لگے گا اس سے تیس ارب آمدن کی توقع ہے۔نال فائلرز کے لیے جائیداد کی خریداری مزید مہنگی کردی گئی ہے نان فائلرز کے لیے اس وقت ایڈوانس انکم ٹیکس دے رہا ہے اسے 100فیصد سے بڑھا کر 250فیصد کردیا گیا ہے جبکہ فائلر کے لیے بھی جائیداد کی خریدو فروخت کو مہنگا گیا گیاہے اس وقت سیل پرچیز پر ایک فیصد ایڈونس ٹیکس ہے جسے بڑھا کر دو فیصد کردیا گیا ہے ، نان فائلر اگر نئی کار خریدے گا اسے ایڈونس ٹیکس کے ریٹ کو دو گنا کردیا گیا ہے ،مسافر گاڑیوں کے ایڈوانس ٹیکس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے ،تعلیمی اخراجات ویدہولڈنگ ٹیکس کوختم کردیا گیا ہے ، مشنری کے کرایہ پر وید ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیا ہے،کسٹم کی مد میں ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والی ڈائز اور کمیکل درآمد پر ڈیوٹی کم کردی گئی ہے فٹ وئر میں استعمال ہونے والی چیزوں پر بھی ڈیوٹی کم کردی گئی ہے، ایل ای ڈی لائٹ اور بلب کی تیاری ہونے والے پارٹس کی ڈیوٹی میں کمی کردی گئی ہے ،گاڑیوں کے علاوہ دیگر چیزوں میں استعمال ہونے والے فلٹرز کے رہ مٹیریل پر ڈیوٹی کم کردی گئی ہے،کوٹنگ انڈسٹری کے لیے استعال ہونے والے ایلومینیم پیسٹ پر کسٹم اور یڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے گڈز ، بلیڈرزاور جانوروں کی سٹومک پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والے فلیور پوڈر کی ڈیوٹی میں بھی کمی کردی گئی ہے، موٹر سپرٹ پر دس فیصدکسٹم ڈیوٹی عائد ہے جسے دس فیصد ریگولیٹری میں بدل دیا گیا ہے اس کا مقصد تمام درآمدکندگان کے لیے یکساں ٹیکس کا نافاذ اس سے پہلے چین سے آنے والے موٹر سپرٹ پر ڈیوٹی کی چھوٹ تھی ،کروم یلو پر پندرہ فیصد ریگو لیٹری ڈیوٹی ختم، ادر پیپر بورڈ چیلو لوز ویڈنگ ، پر دس فیصد رگولیٹری ڈیوٹی لگادی گئی ہے، ہائی کاربن وائر راڈ پر آرڈی ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ فرد کو سپلائی کے لیے سی این آئی سی یا این ٹی این نمبر کی شرط ختم کردی گئی ہے ،گولڈ اور سلور کو جی ایس ٹی سے چھوٹ دی گئی تاہم ان سے جو زیورات کی درآمد پر تین فیصداور مقامی سپلائی پر چار فیصد ٹیکس لگے گا، کلوریٹ پر جی ایس ٹی 90روپے فی کے جی سے کم کرکے 60روپے فی کے جی کردیا گیا ہے، کھاد اور اس کی انپٹ پر جی ایس ٹی کا ریٹ بڑھا دیا گیا ہے ہے۔