پتھرائے ہوے لوگ

دنیا میں حکومتیں بدلتی ہیں عوام کے معیار  زندگی کو  بہتر کرنے کیلئے اور بدلتی حکومتوں میں جمہوریت کا بہت زیادہ  عمل دخل ہوتا ہے ایک حکومت ہمارے ہاں بھی بدلی ہے  اور یہ سب جانتے ہیں کہ کیسے بدلی ہے  تو یہ تبدیلی اپنے سوال کا خود جواب ہے ۔وطن عزیز میں ایک شب میں سیاسی منظر نامہ بدل جاتا ہے اور بہت سے سوال چھوڑ جاتا ہے ۔وزیراعظم موجود مگر پھر بھی کوئی ہوتا ہے جس کے حکم کی تعمیل ہو رہی ہوتی ہے جس شب حکومت بدلی اس شب کسی کا حکم چل رہا تھا کون اداروں کو کنٹرول کر رہاتھا۔ اب ان سوالات سے کچھ حاصل نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ اس شب تک بجلی کی ترسیل کمی کا شکار نہیں تھی، لوڈ شیڈنگ زیرو یا نہ ہونے کے برابر تھی۔ عام آدمی بجلی کے حوالے سے سکھ کی زندگی گزار رہا تھا پھر ایسا کیا ہوا حکومت بھی بدلی اور اس بد نصیب عوام کے ئے لوڈ شیڈنگ  اورمہنگائی کا ایک طوفان گویا کھڑا ہو گیا جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے تو عمران خان نے بھی اس میں کوئی کسر نہی چھوڑی مگر میاں صاحب تو جیسے قسم کھا کے آئے ہیں کہ اس بار ایک بھی غریب نہیں بچے گا۔ایک ہفتے میں دو بار پٹرول کے نرخ اور پھر گیس کے نرخ 45 فیصد بڑھا کر میاں صاحب شاید اپنی قسم پہ پورے اترے ہوں مگر غریب کے کپڑے اتر گئے ۔ غریب اپنے گھر کے چولہے کو جلانے کیلئے نجانے کیسے کیسے جتن کر رہا تھا اور اب تو نیم مردہ ہو رہا ہے۔ غربت کی چکی میں پسے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ بس’’ دعائیں ‘‘ دیتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں چھ سات بار بجلی کا نہ ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں، کئی   علاقوں میں تو بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے سوال تو یہ ہے کہ اس ایک شب میں ایسا کیا ہوا کہ غربت کے ساتھ اندھیرے بھی قسمت میں لکھ دئیے گئے  اوپر سے قدرت بھی ان گرمیوں میں مارچ سے ہی اپنے ہونے کا بتا رہی ہے درجہ حرارت 44 سے کم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور بجلی کی نا پیدگی نے ماحول گرم کر رکھا ہے۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ لوڈشیڈنگ 2 گھنٹوں سے زیادہ ہو تو افسر فارغ کر دیا جائے گا میاں صاحب بھول گئے کہ ان ہی کے گزشتہ ادوار میں بیس گھنٹے بجلی نہیں ہوا کرتی تھی اور اس حکومت کی اتحادی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کے معمولات کیا تھے یہ دونوں حکمران جماعتوں کا تجربہ لوڈشیڈنگ کا تو ہے مگر اس کے خاتمے کا شاید نہیں۔اگر   افسر فارغ کرنے پر آئے توشاید  سبھی گھر بیٹھیں گے۔ مہنگائی کا جن اس بار بے قابو ہوا تو مرکز اور صوبائی حکومتوں کو بھی خیال آیا کہ قرضوں پہ چلنے والی ریاست میں افسروں، وزیروں اور مشیروں کو از حد مراعات حاصل ہیں سبھی صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اخراجات کم کرنے کے اعلانات فرما رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان اعلانات کا مطلب عوامی غم و غصہ کو روکنے کی ایک کوشش ہے جبکہ دوسری جانب اپنی مراعات کو رواں رکھنے کیلئے وفاقی کابینہ نے چین سے 2019 ء میں کیے گئے معاہدے کے مطابق دو ارب تیس کروڑ ڈالرز قرض لینے کی منظوری دے دی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ قرض عوام کے کشکول بھرتا ہے یا خواص کے۔
 میاں صاحب فرماتے ہیں کہ دل پہ پتھر رکھ کے قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں یہی کلمے ان کے وزیراعلیٰ صاحبزادہ کے بھی ہیں اور ایسا ہی کچھ بیانیہ مریم بی بی بھی دے رہی ہیں۔ جب سے حکومت آئی ہے  ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا جا رہا ہے گویا ایک سے زیادہ بار دل پہ پتھر رکھا ہو گا اب تو  شاید پتھر رکھتے رکھتے  آنکھیں اور دل دونوں  ہی پتھر کے ہو چکے ہوں گے اور عوام  ہوشربا مہنگائی اور طوفانی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں پتھرا چکے ہیں ۔دیکھنا یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومتوں کے بجٹ کم کرنے سے عوام کو کچھ فائدہ ہوتا کہ نہیں کیا اس بچت سے لوڈشیڈنگ کم ہوتی ہے کہ نہیں؟یہ جو 74 سالوں سے مراعات یافتہ سرکاری دفاتر میں زندگی گزارنے کے عادی بیوروکریٹ، وزرائ، مشاہیر ہیں یہ کم مراعات سے کیسے گزارہ کر سکتے ہیں؟ کیونکہ گزشتہ ادوار میں بجلی کی بچت کیلئے سرکاری دفاتر میں گیارہ بجے تک اے سی چلانے کی پابندی لگائی گئی تھی تو تب سرکاری آفیسران دفاتر کا آغاز ہی گیارہ بجے کیا کرتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن