قبل از مفتاح اِسماعیل ،جنابِ سرتاج عزیز!

معزز قارئین ! کل  10 جون کو کسی وقت وفاقی وزیر خزانہ جنابِ مفتاح اسماعیل کو پارلیمنٹ میں وفاقی بجٹ پیش کرنا تھا لیکن مَیں نے اِس قبل ہی اپنا کالم بھجوا دِیا تھا۔ جنابِ مفتاح اِسماعیل نے پارلیمنٹ میں جو کچھ کِیا اور وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے جوکچھ کہا سنا ، اُس بارے مَیں کل بات کروں گا ۔
 فی الحال مَیں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ (بعد ازاں وزیر خارجہ ) جناب سرتاج عزیزکی یادوں کو تازہ کر رہا ہُوں (اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے ) جب جون 1991ء میں سرتاج عزیز صاحب نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کی تھی۔ مَیں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ کے ہمراہ وزارتِ اطلاعات ونشریات کی دعوت پر اسلام آباد گیا تھااور پھر 4 اور 5 جون کو دو قسطوں میں ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’آٹے ، دال کا بھائو !‘‘۔مختصراً بات کروں گا ۔ تقریباً 31 سال پہلے کی بات ہے لیکن مَیں آپ کو زیادہ "Bore" (بے مزہ) نہیں کروں گا ۔ 
’’مہا کوی کالی داس!‘‘
معزز قارئین !سنسکرت زبان کے شاعر کالی داس کو ’’مہا کوی‘‘( ملک الشعراء )کو ہندوستان کا "William Shakespeare" کہا جاتا تھا حالانکہ کالی داس کا دَور شیکسپیئر کے دَور سے پہلے کا ہے۔ بعض لوگ ’’ہیر وارث شاہ ‘‘ کے مصنف اور پنجابی زبان کے مایہ ناز شاعر سیّد وارث شاہؒ  کو بھی ’’پنجابی کا شیکسپیئر ‘‘ کہتے ہیں ۔
 کالی داس نے وِشنو دیوتا کے اَوتار ( رام جی کے خاندان سے متعلق ) ’’ رگھو وَنش‘‘ ( رگھو کا خاندان) کے نام سے ایک منظوم داستان لکھی ہے۔ اِس داستان کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’ رگھووَنش‘‘ بہت عظیم ہے اور مَیں ایک معمولی شاعر۔ مَیں اِس وَنش ( خاندان) کی داستان لکھنے بیٹھا ہُوں  مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ’’ مَیں سوت کے کچے دھاگے میں موتی پرونے جا رہا ہُوں ! ‘‘۔
’’ ہیر وارث شاہ !‘‘
معزز قارئین ! مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ہیر وارث شاہ ‘‘ لکھی گئی توسیّد وارث شاہ ؒکے پیر صاحب مولانا غلام محی اُلدّین قصوریؒ نے بھی یہی کہا تھا کہ ’’ وارث شاہ ؒ! تُم نے مُونجھی کی رسی میں موتی پرودئیے ہیں‘‘۔ ( مطلب یہ تھا کہ ’’ وارث شاہؒ نے ’’ہیر رانجھا ‘‘ کے عشقِ مجازی کی بنیاد پر عشق حقیقی کی عمارت کھڑی کردِی ہے ۔ اہل ذوق ہیر وارث شاہ کو تصّوف کی کتاب سمجھتے ہیں!‘‘۔ 
’’انگوں ، رنگوں کی شاعری ! ‘‘ 
معزز قارئین ! مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ رقص ‘‘ کو، انگوں ( اعضاء ) کی شاعری اور ’’مصّوری ‘‘ کو رنگوں کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن جس ہُنر مندی اور مہارت سے وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے وفاقی بجٹ کے بارے قومی اسمبلی میں تقریر کی اور پھر اگلے روز پریس کانفرنس میں جو وضاحتیں کی کیں‘اُسے موجودہ مالی سال کے لئے وفاقی بجٹ کو بھی خوبصورت تتلیوں ، جگنوئوں اور پتنگوں کی شاعری قرار دِیا جاسکتا ہے ۔ بلا شبہ جناب سرتاج عزیز اِس دَور کے ’’ مہا کوی ‘‘ ( ملک اُلعشراء ) کہلانے کے مستحق ہیں ۔ کالی داس اور سیّد وارث شاہؒ کی طرح انہیں بھی دورِ حاضر کا ’’شیکسپیئر ‘‘ قرار دِیا جاسکتا ہے  کہ’’ اِنہوں نے ایک روایتی بجٹ کو لفظوں کے خوبصورت گورکھ دھندے کی پلیٹ میں سجا کر سوت کے کچے دھاگے میں یا مُونجھی کی رسی میں موتی پرو دئیے ہیں !‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ یہ جنابِ سرتاج عزیز کا کمالِ فن ہے کہ ’’ وہ ایک اچھے "Salesman" ہیں ۔ اُنہوں نے آٹے ، دال اور گھی میں کمی کا اعلان کر کے کم از کم وقتی طور پر تو، یہ ثابت کردِیا ہے کہ"I.J.I" ( اسلامی جمہوری اتحاد) کی حکومت، غریبوں کے مفاد کے لئے کام کر رہی ہے !‘‘۔ 
’’ پریس کانفرنس !‘‘
مَیں نے وقفۂ  سوالات کے دَوران پریس کانفرنس میں جنابِ سرتاج عزیز سے عرض کیا کہ ’’مُغل بادشاہ ظہیر اُلدّین بابر ہندوستان آیا تو اُس نے کہا کہ ’’ ہندوستان کے لوگ بھی عجیب ہیں،…  اپنا تن ڈھانپنے کے لئے ایک چھوٹا سا کپڑا استعمال کرتے ہیں اور اُسے ’’لنگوٹی ‘‘کہتے ہیں اور ’’غلّے کو غلّے ‘‘ سے کھاتے ہیں تو اُسے دال روٹی کہتے ہیں !‘‘ 
معزز قارئین ! مَیں نے جنابِ سرتاج عزیز سے عرض کِیا تھا کہ ’’ پونے پانچ سو سال پہلے کا دال روٹی کا نظام واپس لانے میں مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہُوں اور اب آپ’’ لنگوٹی‘‘ کا نظام کب لائیں گے !‘‘۔ وزیر خزانہ نے اِس کا جواب ایک قہقہے سے دِیا ، سٹیج پر بیٹھے ہُوئے اُن کے ماتحت افسران نے بھی قہقہہ لگایا۔ 
مَیں نے مزید عرض کِیا کہ ’’ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کے دَور میں اُن کے محلوں کے باہر غریبوں کے لئے چنے کی دال کی کھچڑی کی دیگیں پکتی تھیں اور یہ کھچڑی مفت ملتی تھی !‘‘ لیکن وزیر خزانہ صاحب ! آپ نے صرف آٹا ، گھی اور چنے کی دال سستی کرنے کا اعلان کِیا ہے باقی دالیں تو اب غریبوں کے نصیب میں نہیں ہوں گی، اُن کے لئے ’’ یہ مُنہ اور مسُور کی دال ‘‘ کی ضرب اُلمِثل صادق آتی ہے !‘‘ 
معزز قارئین ! اِس پر وزیر خزانہ سرتاج عزیزاور اُن کے ساتھی پھر ہنس پڑے تو مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ آٹے کی روٹی پکانے اور چنے کی دال میں گھی ڈال کر بگھارنے میں "Gas" صرؔف ہوتی ہے اور پھر "Kitchen" میں بجلی کا بلب بھی ہوتا ہے لیکن آپ بجلی اور گیس کی قیمتیں پہلے ہی بڑھا چکے ہیں۔ کیا غریبوں پر یہ بوجھ کم نہیں کِیا جاسکتا؟۔ تو وزیر خزانہ صاحب نے جواب دِیا تھا کہ ’’ فی الحال ہمارے وسائل اِس بات کی اجازت نہیں دیتے !‘‘۔ اِس پر مَیں نے زیادہ اصرار نہیں کِیا ۔ 
اِس پر مجھے اُستاد شاعر ، اکبر الہ آبادی ؒ  کے یہ دو شعر یاد آ گئے تھے کہ …
تھی کیک کی فِکر، سو روٹی بھی گئی!
چاہی تھی بڑی، سو چھوٹی بھی گئی!
… O…
واعظ کی نصیحتیں، نہ مانیں، آخر!
پتلون کی تاک میں، لنگوٹی بھی گئی!
… O…
معزز قارئین ! مَیں نے واعظ کی نصیحتیں مان لی تھیں۔ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ ’’ غریبوںکی روٹی اور لنگوٹی چھن جائے ، پھر مَیں نے اپنے کالم میں چشتیہ سلسلہ کے ولی حضرت خواجہ نظام اُلدّین اولیائؒ کے مُرید ِ خاص حضرت امیر خسرؒو کا یہ شعر لکھ دِیا تھا کہ :
کھیر پکائی جتن سے اور چرخہ دِیا جلا !
آیا کُتّا کھا گیا ، تو بیٹھی ڈھول بجا !
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن