سیانے کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیزتغیر کے عمل سے گزر رہی ہے،تاہم بذاتِ خودصرف تغیر کوثبات حاصل ہے۔ یعنی تبدیلی بذاتِ خود اَمرپیہم سے عبارت ہے۔ کائنات کے جُملہ اجزا ، خواہ وہ مناظرِ فطرت میں سے ہوں یا مخلوقات میں سے ، فطری اور ساختیاتی تبدیلیوں کا عہدِ مستقل ٹھہرے ہیں۔شاید ہی باقی مخلوقات کے باہمی ابلاغ و مواصلات میں اتنا تغیر و تبدل رونما ہوا ہو جتنا حضرتِ انسان کی مادری اور ثانوی زبانوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔زبان میں بتدریج تبدیلی کو جس طرح پاکستان میں پذیرائی ملی ہے،شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں یہ عجوبہ برپا ہوا ہو۔یہاں تعلیم کے انحطاط اور تربیت کے فقدان نے برداشت،خلوص،ہمدردی اور دیگر انسانی اقدار کو چھیننے کے ساتھ ساتھ زبانوں کو ’’نشترانہ الفاظ‘‘ سے پروکر رکھ دیا ہے۔یقین نہ آئے تو دوستوں میں دورانِ تکرار بولے گئے الفاظ سُن لیجیے،کسی سرکاری سکول میںطالب علم کے سبق یاد نہ کرنے پراستاد کی گفتگو پر توجہ دے لیجیے،جمعہ کے خطبہ میں مسجد کے منبر سے فریقِ مخالف کی’’ عزت افزائی‘‘ کے لئے ’’خطیب ِ پاکستان‘‘ کے منہ سے چنیدہ الفاظ سُن لیجیے، مگر سب سے بڑھ کر سیاسی آقاو مولا کی’’ جمہوریت کی افادیت سے لبریز‘‘ گفتگوکی غنائیت کا ’’حظ اٹھایئے‘‘۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ جو تغیر اس کے نصیب میں آیا ہے، وہ فقید المثال ہے۔جسے اخبارات و رسائل،ٹیلی ویژن،ریڈیو اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز انتہائی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ ریکارڈ کر رہے ہیں۔آنے والے زمانہ میں جب کوئی’’زبان میں نشتر و خنجر کا استعمال‘‘ کے موضوع پرتحقیق کرنا چاہے گا تو سابقہ ادبی جائزہ(لٹریچر ری ویو)کے لئے اس کے پاس وافر حوالہ جاتی مواد دستیاب ہوگا۔
پاکستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ پوری دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں اس کے حصہ میں آئی ہیں۔ہر جماعت میں ’’اعلیٰ درسی تعلیم یا فتہ‘‘افراد کے ڈنکے بجتے ہیںجس سے اس جماعت کے اندر قائدانہ صلاحیتوں اور مستقبل بینی کے اوصاف کاواضح پتہ چلتا ہے۔لیکن ان’’ دانشورراہنمائوں‘‘کی زبان پر جب جماعتِ مخالف کے ’’ہم وزن‘‘رہبرکا نام آتا ہے توسماعتیں لرزنے لگتی ہیں۔
سال2022ء میں،جس کے ابھی پانچ ماہ گزرے ہیں، ہماری سیاسی لُغت کی تدوین کے لئے خاطر خواہ مواد اکٹھا ہوگیا ہے۔آج کل جو جملے جماعتِ مخالف کے راہنما ئوں کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں،اُن میں سے نمونے کے طور پر کچھ یوں ہیں۔’’فلاںبہت بے غیرت شخص ہے‘‘۔’’فلاں بے شرم اور ڈھیٹ اور مکار ہے‘‘۔ ’’فلاں یہودی ،کافر اور بے ایمان ہے‘‘۔’’فلاں ڈیزل ،سیاسی سٹپنی ،فلموں والی مائی ہے‘‘۔’’فلاں دھر فٹے منہ ہے‘‘۔’’فلاںلعنتی اور بے ضمیر ہے‘‘۔ایک مرحوم مذہبی سیاسی راہنما جنہوں نے اپنی عقلِ سلیم میں اترنے والی تمام گالیوں کی’’ خشوع وخضوع‘‘کے ساتھ ادائیگی کے بعد فرمایا تھاکہ اُنکی لُغت میں اب گالیاں ختم ہو گئی ہیں۔اگر اور ہوتیں تووہ اُن کی ادائیگی سے بھی شرف یاب ضرور ہوتے۔آج اگر وہ زندہ ہوتے تو اُنہیں اپنی گالیوں کی لغت کی کوتاہ دامنی کا گلہ قطعاً نہ رہتا۔
2022ء کی سیاسی لُغت میں الفاظ کی نئی نئی تراکیب کی اختراع میں جہاں مرشدانِ جمہوریت نے انتہائی جوش وجذبے سے کام لیا ہے،وہاں اُنکے ’’ ارادت مندوں، پیروکاروں اور محبت کاروں‘‘نے اس سلسلہ کو کارِ ثواب جانتے ہوئے بامِ عروج تک پہنچانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی۔ جیسے ’’ قدامت پسند‘‘ دور میں چند ڈراموں یا فلموں کے اشتہارات میں انتباہ کے طور پر لکھ دیا جاتاتھا،’’صرف بالغوں کیلئے یا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھیں‘‘۔ اسی طرح آج کی سیاسی اور کچھ مذہبی عشق میں ڈوبی’’ عقیدت سے مزین‘‘تحریر کو ’’بیچارے قدامت پسند لوگ‘‘بیوی بچوں کے سامنے پڑھنے سے حتی المقدور اجتناب برتتے ہیں۔کیونکہ’’ قدامت پسندانہ دور میں‘‘ ماں، بہن یا بیٹی کی گالی زبان پر لانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا۔آج سیاسی تربیت و جدّتِ مراسلت نے ہر کسی کو اس تکلف سے یکسر آزاد کر دیا ہے۔کوئی جو چاہے، جب چاہے، جس طرح چاہے بلا خوفِ تعزیر کہنے میں آزاد ہے۔ بھاری بھرکم سیاسی الفاظ و تراکیب کی تخلیق کاری پر مردسیاستدانوںکی اجارہ داری قطعاً نہیں ہے۔اس قافلہ میںشامل خواتین مردوں کے شانہ بشانہ برابر حصہ ڈال رہی ہیں۔
کون انکاری ہے کہ ہمارے معاشی حالات نے ہمیں دریوزہ گر اور کف گیر بنا رکھا ہے۔کبھی درِ آئی ایم ایف پر ،کبھی ورلڈ بنک کی چوکھٹ پر، کبھی جذبہ مسلمانی کے تحت اسلامی ریاستوں کے حضور، تو کبھی چین و روس اوردیگر خیر خواہوں کی بارگاہ میں دامنِ طلب پھیلانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔مانا کہ مفلسی کے اسباب میں سب سے بڑا کردار، پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک، ہر اپوزیشن کے بقول،گزشتہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیاں،وراثتی غارت گری،اقربا پروری اورانتظامی نااہلی ہے۔بلاشبہ اس کا کریڈٹ سیاسی جماعتوں کے ہی نامہ اعمال میں جاتاہے،بھلے وہ نامہ اعمال کسی جماعت کے دائیں ہاتھ میں ہو یا بائیں ہاتھ میں۔زیادہ باعثِ تشویش اَمر یہ ہے کہ معاشرتی اقدارکے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جو معاشی میدان میں سرزَددِکھائی دیتا ہے۔آج پاکستان جتنے بڑے معاشی بحران سے گزررہا ہے،اسے اس سے کہیں بڑے معاشرتی بحران کا سامنا ہے۔جس کی طرف مرشدانِ جمہوریت و اَکابرینِ دین،اتالیق مدارس اور ذمہ دارانِ خبرومراسلت توجہ دینے سے عاجز ہیں۔
2022ء کی سیاسی لُغت ابھی اپنی تدوین کے ابتدائی مراحل میں ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ مزید ’’بھاری بھرکم‘‘الفاظ و تراکیب کے در آنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ہو سکتا ہے قارئین اسے دیوانے کا خواب کہیں یامیری خواہش سمجھیں ۔مگر مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی عار نہیں کہ میرے دین اور اس وطن کو اشد ضرورت ہے کہ اس لُغت میں ایسے الفاظ و تراکیب کو جگہ دینے کا ارادہ باندھا جائے جو باہمی اَدب و لحاظ ،محبت و اخوت،شرم وحیا،ہمدردی و بھائی چارہ،شیرینی و متانت کے مادہ سے اٹھائے گئے ہوں۔ قارئین سے بس اتنی درخواست ہے کہ اب کی بار جب قبل اَز انتخابات کوئی’’انشاء اللہ امیدوار‘‘ آپکے پاس آپکے ووٹ کا اصلی حقدار بن کر آئے توسولنگ،نالیوں ،گیس اور بجلی مہیا کرنے کے اعلیٰ و اَرفع وعدوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار میں بہتری لانے میں اپنا کردار ادا کرنے کا مبہم سا وعدہ بھی ضرورلے لیجیے گا۔