کچھ احوال دل کو جاتی سڑک کا

آج جب دو مہینوں کے بعد لکھنے کے لیے بیٹھی تو سوچا کہ آخر کار اس دل کو جاتی ہوئی راہ کی بات ہو جائے۔ دنیا کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ اپنوں کی بات ہو جائے۔ کوشش ہو گی کہ لہجہ نرم ہی رہے لیکن شائد تلخ ہو جائے۔ 
پنجاب کے چھتیس اضلاع میں اوکاڑہ ایک دل کا سا مقام رکھتا ہے۔ جیالوں کے لیے منی لاڑکانہ اور آج کل سوئے ہوئے انقلاب کے لیے ان کا گڑھ۔ذہن دقیانوسی ہے آزاد خیال بالکل بھی نہیں لیکن ستلج والے ووٹ آزاد کو دینا چاہتے ہیں۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے درمیان تین بار پنجاب کی پگ پہننے والا میرا ضلع اوکاڑہ۔ کیا شان تھی کیا آن تھی کارپٹ سڑکوں کا جال بچھا تھا۔ قصور سے دیپالپور روڈ، دیپالیور سے حویلی لکھا روڈ، دیپالپور حجرہ شاہ مقیم روڈ، حویلی لکھا سے بصیر پور روڈ۔ یہ تمام علاقے زرخیز زمین اور کاشتکاری میں سارے پنجاب اور پاکستان میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ آلو کا کاشتکار تو سونا اگاتا ہے۔ انڈیا کا بارڈر بالکل قریب ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے بھی اس علاقے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ 1990ء میں اس علاقے میں ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہوا جو 2013ء تک اپنے عروج پر تھا لیکن انسانوں کی طرح شائد علاقوں کو بھی زوال ہیں جب حکمران ظالم، نااہل اور ناتجربہ کار ہوں تو علاقے اور ملک تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ 
مجھے ہمیشہ اپنی مٹی پر بڑا فخر رہا ہے اس کی وجہ یہ کہ میں جہاں کہیں بھی گئی مجھے خوشحالی کے آثار ضرور نظر آئے اگر سو لوگ ہوں تو ان میں سے کوئی ایک ایسا ضرور ملا جس کو نوکری دی گئی۔ ڈگری کالج، پارک، سوئی گیس، بجلی ، سڑکیں ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی علاقے کی ترقی روکنی ہو تو اس کے باقی جگہوں سے رابطے منقطع کر دیں۔ یہی حال ہمارے ضلع کا ہوا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں پرانے اور آزمودہ لاڈلوں نے ان لیگ کی پنجاب اور وفاق میں حکومت بن جانے کے باوجود ضمنی الیکشن میں ہارنے کی سزا پانچ سال تک اس علاقے کے لوگوں کو دی۔ کوئی ترقیاتی کام نہیں کروایا گیا۔ اس کے بعد جب 2018ء میں آر ٹی ایس بیٹھنے کے نتیجے میں اوکاڑہ ایک بار پھر ن لیگ کا ہوا تو علاقے کو ایک عجیب و غریب سی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا کہتے ہیں ’’All the politics is local ‘‘2018 ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کی اکثریت پنجاب اورمرکز میں بنی تو اوکاڑہ ضلع کے لوگوں نے سوچا کہ اب تو ہماری قسمت جاگنے والی ہے کیونکہ ویسے بھی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان صاحب علاقے کے داماد ہو گئے۔ لوگوں نے سوچا کہ اب تو اتنی قریبی رشتہ داری ہو گئی ہماری زمین پر ہن برسے گا اور ہر دکھ درد مٹ جائے گا۔ ن لیگ کے جیتنے کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدواران صرف تین سے چار ہزار ووٹوں سے ہارے تھے اس لیے علاقے کو فنڈز ملنا میرٹ بھی تھا اور انتہائی ضروری بھی۔ پر ایسا نہ ہوا پنجاب میں بزدار صاحب کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کو ایک کٹھ پتلی بنا کر بٹھا دیا گیا اور خدا جانے وہ کن الہامی احکامات پر حل رہے تھے کہ جب بھی ان کی توجہ اوکاڑہ کی دگرگوں حالت کی طرف کروائی گئی انہوں نے چین کی بانسری بجانے پر اکتفا کیا اور پانچ سال ن لیگ کی حکومت اور تقریباً چار سال تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رہنے کے بعد اس وقت تحصیل دیپالپور جس سے خاص محبت کی گئی ہے   حال یہ  ہو چکا ہے کہ بذریعہ کار، وین یا موٹر سائیکل جو بھی سفر کرتا ہے وہ جب گھر سے نکلتا ہے تو دونوں جماعتوں کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ سفر کرنے سے پہلے لوگ سوال کرتے ہیں کہ آنے کا راستہ بہتر ہے یا جانے کا۔ تو میں یہ بتا دوں کہ راستے دونوں خراب ہیں یہاں کسی نے مرمت کے لیے بجری بھی نہیں ڈلوائی۔ میں جب بھی اس سڑک پہ سفر کرتی ہوں میرا دل دکھتا ہے۔ غم اور غصے کا ایک عجیب  سا امتزاج ہو جاتا ہے۔ اللہ کے بعد جو بھی عزت ہمیں ملی ہے وہ اس علاقے کے لوگوں کی دین ہے ان کی محبت ہے۔ اس لیے ان کی تکلیف سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے اور جو ان کے لیے آسانی کا باعث نہیں بنتا اور مشکل کا باعث بنتا ہے میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ 
دن، رات، خوشی ، غم ، عروج و زوال یہ سب وقت کے دھارے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہیں لیکن ہمت نہیں۔ چپ ہیں طوفان دبائے۔ ان سڑکوں پر ہر خاص و عام نے چلنا ہے کسی ایک پارٹی کے لوگوں نے نہیں نہ ہی کسی ایک قوم یا برادری کے لوگوں نے۔ یہاں کے لوگ اٹھیں گے اپنے حق کے لیے اور وقت آنے پر سوال کریں گے کہ ان کے ضلع کے خلاف سازش امپورٹڈ تھی یا کسی اپنے کی اور اس علاقے کو پچاس سال پیچھے دھکیلنے اور ترقی کا سفر روکنے پر بھی وہ سوال  تواٹھائیں گے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...