کیاہم آزادقوم ہیں؟ بظاہرتویہ ایک فرسودہ سوال ہے اوراسکا جواب تویہ بنتاہے کہ جناب ہم پچھترسال پہلے آزادہوگئے تھے اور ہمارا دعوی ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ اس دعوے کی تمہید میں ایک مغربی مفکر لکھتاہے کہ قوموں کے عروج کے دن موسموں کی طرح ہوتے ہیں دورِپچپن سے دورِشباب میں خوشیوں ،مسرتوں اور راحتوں کے پھول لہک اٹھتے ہیں۔ قومی ترقی کی ہری بھری کھیتیاںلہلہا اٹھتی ہیں اور قوموں کے دورِ ضعیفی میں قوم کاوقار سر چڑھ کر بولتا ہے اورماضی کے درخشاں فیصلے اسے جوان رکھتے ہیں۔ یہ تو تاریخی سرکل ہے جو چلتا رہتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مملکت خداداد کو کس دور میں داخل کردیا ۔جہاں عوام کی چیخوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا ۔ جب برطانوی سامرج ہم پر قابض تھا اسوقت بھی غریب عوام کو ڈنڈے سے ہانکا جاتا تھا ۔آج بھی یہی صورتحال ہے۔تب بھی اقتدار اعلیٰ پرکوئی اورفائز ہوتا تھا آج بھی فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں۔مملکت خداداد تو امن اور سکون کیلئے حاصل کی گئی تھی ،حضرت واصف علی واصف کا قول ہے جب کسی زمین کا ٹکڑا مسجد کیلئے خریدتے ہیں تو وہ اللہ کے لئے حاصل کیاجاتاہے اور وہ مقدس ہوجاتاہے۔ اسی طرح پاکستان ایک مقدس سرزمین ہے اسکا احترام واجب ہے لیکن یہاں تو یہ صورتحال ہے کمر توڑ مہنگائی سے عوام کاجینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی خودمختاری میں شہریوں کی اقتصادی ترقی اور فلاحی ترقی ضروری ہے تو یہ اقتصادی اور فلاحی ترقی کس چڑیا کانام ہے ۔وہ تو اسی دن پھر سے اڑ گئی تھی جس دن ہوس اقتدار اور لالچ کاوائرس ہماری جڑوں میں سرایت کرگیاتھا۔ شہنشاہ جہانگیر دوکبوتر ملکہ نورجہاں کوپکڑا کرکسی کام سے باغیچے سے باہر گیا جب واپس آیاتو ملکہ کے ہاتھ سے ایک کبوتر اڑ گیاتھا شہنشاہ نے پوچھا کبوتر کہاں ہے ملکہ نے کہا وہ تواڑگیا۔ شہنشاہ نے پوچھا کیسے ۔ملکہ نے دوسرا اڑاتے ہوئے کہا ایسے۔ شہباز شریف جب اقتدار کے باغیچے میں آئے تو ایک کبوتر مہنگائی کا پہلے ہی انکے ہاتھ سے اڑ چکا ہے اب دوسرا کبوتر اقتدار کا ہے جوانکے ہاتھ میں ہے اور انکے مخالفین کے ہاتھوں کے طوطے اڑانے کیلئے کافی ہیں۔ شہباز شریف سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے مسائل پر پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان بھی قابو پانے سے کیوں قاصرنظرآرہے ہیں ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پیٹرول میں ساٹھ روپے اضافہ ایک گاڑی والے کوموٹر سائیکل اور ایک موٹر سائیکل والے کو سائیکل پر لے آیا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومتی رکن کابیان سامنے آیا کہ بجٹ میں خوشخبریاں ہوسکتی ہیں۔اس سے قبل آٹے کی عدم دستیابی غریب عوام کیلئے ایسا تحفہ ہے کہ جس نے انکے چولہے ٹھنڈے کردئیے ہیں۔ پچیس فی صد پیٹرول کی کھپت کم ہوگئی ہے، پنجاب میں سستا آٹا پروگرام فلاپ ہوگیا ہے۔ اب عوام کن وعدوں پر اعتبارکریں ۔
پاکستان ہم سب کاملک ہے اسے ہم سب نے ترقی کی راہ پرگامزن کرنا ہے ۔اسکے لئے سب سے ضروری امر سیاسی استحکام ہے اور اس کا اعادہ وزیراعظم نے بھی کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ معیشت کی مضبوطی کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی استحکام نہ تو کشمکش اور تذبذب کے ماحول میں پنپتاہے اور نہ ہی درخت پرلگا ہوا کوئی پھل ہے جسے باآسانی توڑ لیا جائے۔ اسکے لئے اپوزیشن اور حکومت میں یک جہتی ضروری ہے۔ جب جماعتوں کامقصد اپوزیشن کومٹانا رہا ہو اور اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہو تو سیاسی استحکام کا خواب ادھورا رہ جاتاہے ۔جمہوریت عملیت پسندی اور تشکیک کے تال میل کا نام ہے ۔یوٹوپیائی نظریات کے حامی بھی اس تصور کے قائل ہیں کہ تما م جماعتوں کوساتھ ملائے بغیر امن کا حصول ناممکن ہے ۔
پاکستان جیسے ممالک میں ابھی جمہوریت کی راہ رکاوٹوں سے بھری پڑی ہے ہمارامسئلہ ہی یہی ہے کہ جب تک سازشوں سے حکومتوں کو برطرف کرنے کا سلسلہ رہے گا سیاسی استحکام کی طرف قدم بڑھانا مشکل تر ہوجائیگا ۔سپاکستان جیسے ممالک میں جہاں مسائل کا انبار لگاہوا ہو۔ ایک مسئلے کو حل کریں تو دو اور نکل آئیں، وہاں خلوص نیت اور حب الوطنی ہی وہ محرک رہ جاتاہے جس سے بہتری ممکن ہے لیکن جہاں سازش کی سیاست سے تمام دروازے بندکرنے کا رحجان بڑھ جائے وہاں انتشار بڑھتا ہے استحکام کے دروازے نہیں کھلتے ۔
حکومت کی بوکھلاہٹ اور فیصلے
Jun 11, 2022