ملک میں کچھ سالوں سے سوائے انتشار، بدامنی، مہنگائی اور طوفان بدتمیزی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک سے چہرے ایک سی باتیں، آکھیں تھک گئیں اور کان اکتا چکے ہیں۔ یہ ہے نیا پاکستان اور وہ تھا پرانا پاکستان، لو اب دونوں سنبھال کر کوئی رکھ لو کہ دونوں ہی میں نہ سکون ہے نہ امن ہے۔ دشمن کیلئے ایٹمی طاقت تو ہم بن گئے اور وہ ایٹم بم کہیں سنبھال کر رکھ دیا۔ استعمال کرنے کی سکت نہیں جبکہ منہ زور مہنگائی کا ایٹم بم عوام پر ہر روز پھینکنے کی ہمت ضرور ہے۔ سچ پوچھیں تو اس وقت تک ہر ایک سیاستدان نے مایوس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوش اْڑا دینے والی مہنگائی میں انکے بھاشن اور انکی شکلیں مزید نہ دیکھنے کی تمنا ہوتی ہے۔ پٹرول، بجلی اور ضروریات زندگی کو اس قدر مشکل تر بنا دیا گیا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ خصوصا" پریشان ہے۔ اس بار سبسڈی کے باوجود بجلی کے بل دیکھ کر یقینا" آپ سب کو ایک بار کرنٹ تو ضرور لگا ہوگا اور ابھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہت سے لوگ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں جس پارٹی کوکچھ سپورٹ دے رہی تھی اب اسکے بھی خلاف ہورہی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ سابقہ پارٹی ہمیں بہت پسند آگئی ہے۔ بات یہ ہے کہ مایوس کن حالات پیدا کرکے جانے والے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور آنیوالوں کے سامنے کنواں اور پیچھے کھائی کے مصداق پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ صوفیہ بیدار نے اس صورتحال کے پیش نظر درست جواب دیا تھا کہ ہم ووٹر ہیں عاشق نہیں۔ بالکل یہی میرا نظریہ ہے۔حیرت انگیز طور پر صوفیہ بیدار اور میری تاریخ پیدائش ہی ایک جیسی نہیں بلکہ خیالات بھی ایک جیسے ہیں۔ سو قارئین میں بھی صرف اب تک ووٹر ہی تھی۔ عشق وعاشقی کے درجے پر فائز ہونے کا شوق رہا بھی نہیں۔ سیاسی پارٹیز کیلئے۔ وہ تھے یا یہ ہیں سب اپنے اپنے گھن چکر میں اپنے اپنے رستے اپنی اپنی کرسی تلاشنے کے کھیل میں مصروف عمل ہیں۔ عوام کو اس وقت ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ سیاستدانوں کی جذباتی تقریروں اور گھروں سے نکل کر اپنے اور ملک کے حالات پر زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ جلسے جلوسوں میں آپ کو مروا کر نعرے لگوا کر آگے نکل جائینگے آپ صرف اور صرف مہرے ہونگے اور بس۔ اس پیناٹزم سے نکلئے اور سوچئیے کہ آپ کن کی خاطر اپنے گھروالوں اور دوست احباب کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ موجودہ حکومت کئی ممالک سے رابطے کرکے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ متحدہ کی باقی جماعتیں اپنے اپنے منصب کو انجوائے کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر نفرت کا کاروبار پھیلانے میں سرتوڑ کوششیں جاری ہیں جبکہ موجودہ حکومت لاکھ کوشش کے باوجود عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک عام بندے کو روٹی، گھی اور بجلی کے بل سے غرض ہے کرسی پربیٹھنے والے کو مسائل سے آشنائی اس کا پیٹ بھر بھی نہیں سکتی۔
2000کے اعلان نے ایک مضحکہ خیز صورت حال پیدا کردی ہے۔ سابقہ حکومت میں بھی اسی طرح کے مذاق وقتا" فوقتا عوام الناس کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو ایسے بیانات کا نوٹس لینا چاہئے۔ ابھی یہ سب تماشا چل ہی رہا تھا کہ بجٹ کا وقت سر پر آن پہنچا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بعد بجٹ کے اعلاننے پریشانیوں کو مزید پریشان کردیا ہے۔ سرکاری ملازمین خاص طور پر پریشان ہیں کہ سال کا یہ واحد موقع ہوتا ہے جب انہیں تنخواہ میں اضافے کی کچھ اْمید ہوتی ہے۔ اگرچہ پچھلے چند برسوں سے حکومتیں رودھو کر چند فیصد اضافے پر ہی ٹرخاتی آرہی ہیںاور اس بار چند فیصد کی اْمید بھی دم توڑتی ہی نظر آرہی ہے۔ قیمتوں میں کئی کئی سو گنا اضافہ اور آمدن میں ایک دھیلے کا بھی اضافہ نہ ہو تو نہیں معلوم عوام کی کیا حالت ہوگی۔96ارب کا اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز پر غور ہورہا ہے جس کے مطابق ایک لاکھ سے اوپر تنخواہ لینے والوں کو30فیصد جبکہ ایک لاکھ سے کم تنخواہ والوں پر 20فیصد مزید ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ مزید کئی نوعیت کے ٹیکس بھی اکٹھا ہوں گے اور رقم کہاں جائے گی ؟ جی نہیں قومی خزانے میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کرنے میں استعمال ہوگی۔ کچھ دن قبل میں اس حق میں تھی کہ پٹرول سمیت باقی چیزوں پر سبسڈی ختم کرکے قرض کی رقم کو کم کیا جاسکتا ہے۔اس میں سے ہمیں تھوڑی سی قربانی دینا ہوگی کیونکہ خدانخواستہ سری لنکا جیسے حالات ہونے سے بہتر ہے کہ قبل از وقت کچھ تنگی برداشت کرکے قربانی دی جائے۔ لیکن جس رفتار سے مہنگائی بڑھ رہی ہے کیا واقعی یہ سب سوچنا اور کرنا آسان ہوگا۔ شہباز شریف صاحب نے کہا ہے کہ انشاء اللہ جلد پاکستان کی تر قی راکٹ کی رفتار سے اوپر جائے گی۔ جناب وزیراعظم صاحب ابھی تو عوام کے ہوش راکٹ کی رفتار سے اْڑنے والے ہیں جب بجٹ پیش ہوگا۔اگرچہ ہر روز مہنگائی کا گراف بھی راکٹ کی رفتار سے اوپر جارہا ہے۔ یقینا" آپ کیلئے مسائل ہیں لیکن یہ ایک نہایت کٹھن اور کڑاامتحان ہے جس میں سے نکلنے کی تدبیر آپ ہی کو کرنا ہوگی۔اس وقت عوام کی اْمیدیں بھی آپ سے ہی ہیں۔
آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے
Jun 11, 2022